021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق میں میاں بیوی کااختلاف
82541طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

بیوی کابیان

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

١۔چھ سال پہلے میرے شوہرنے مجھے کہا کہ"آپ نے میری بہن }نند{سے بات کی تو تمہیں طلاق"،ہم سب ایک گھرمیں رہتے ہیں تو بات شروع ہوگئی تھی، یہ بات میرے شوہرنے ایک دفعہ سب کے سامنے ٹیبل پر کہی جبکہ دوسری دفعہ کمرے میں بولا کہ"نندسے بات کی تو طلاق تمہیں"

۲۔آٹھ،دس مہینے پہلے انہوں نے اللہ پاک کی گستاخی کی تھی اورپھر اس نے تجدیدایمان اورتجدیدنکاح کیاتھا۔

۳۔اکثریہ غصے میں بولتے رہتے ہیں کہ"تم آزاد ہومیری طرف سے "انہوں نے ایک دفعہ یہ میسج لکھ کربھیجاکہ "تم میری طرف سے آزاد ہو،کہتی ہوتو فون پر دوں یا لکھ کر دیدوں"

ذراذرا سی بات پر غصہ کرنا ان کی عادت ہے جیسے فون نہ اٹھایا یا میسج کا جواب فورا نہیں دیااورغصہ میں یہ کہہ جاتے ہیں اوران کو پتہ نہیں چلتاکہ کیاکہہ رہاہوں۔

۴۔کل صبح پھرانہوں نے جوپہلے دو دن سے لڑائی چل رہی تھی میسج کیا کہ میں تمہارے طنزاورباتیں برداشت نہیں کرسکتااورتمہارے ساتھ رہنا نہیں چاہتا،پھر میں نے میسج کیاکہ اگر آپ کو چھوڑناہے تو چھوڑدیں تو انہوں میسج کیاکہ "چھوڑدیا"۔

سائلہ نے فون  پربتایا کہ واقعات اسی ترتیب سے ہوئے ہیں جس ترتیب سےمیں نے لکھے ہیں کہ معلق طلاق کا جملہ پہلے ٹیبل پرکہا الفاظ یہ تھے" نندسے بات کی تو تجھے طلاق"  اوران کی بہن کو بھی یہ جملہ یاد ہے، اس کے بعد کمرےمیں جاکرکہاکہ"نندسے بات کی تو طلاق تمہیں"سائلہ کاکہنا ہےکہ مجھے اچھی طرح یہ الفاظ یاد ہیں، اس کے بعد گستاخی کا معاملہ پیش آیا اورتجدید ایمان اورنکاح ہوا اوراس کے بعد اس نے آزاد کا لفظ تین مرتبہ میسج کیا اورپھر مٹایا اورایک مرتبہ زبانی بھی کہا کہ "پھرتم آزاد ہو" اوراس کے بعد چھوڑیا والالفظ بولاہے۔

شوہرکابیان

میں نے کبھی بھی ان کو طلاق دینے کا نہیں سوچاجبکہ میں ان سے محبت کرتاہوں  ۔

١١۔ میں نے 6،7سال پہلے اپنی بہن سے لڑائی کے دوران اپنی بیوی سے یہ کہا کہ "اگر تم نےمیری بہن سےبات کی تومیں

تمہیں طلاق دیدوں گا " یہ بات میں نےپھر کمرے میں آکرکہی کہ "اگرتم نے اس سے بات کی تو میں تم کو طلاق دیدونگا"،لیکن میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے طلاق کالفظ استعمال کیا کہ "میری طرف سے طلاق "مجھے اب یاد نہیں ہے۔

۲۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے بارہا یہ کہاہے کہ" میری طرف سے تم زاد ہو" لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ آزاد کا لفظ جتنی باربھی میں نے کہاہے اس زمرےمیں کہاہے کہ  جاؤ ابھی ،پھر جہاں جاناہے جاؤ اپنی مرضی سے شاپنگ کرو، بازارجاؤ،اس کے گھر جاؤ۔

۳۔میں کھاریاں ضلع گجرات میں کام کررہاہوں ،وہاں سے واٹسپ پر میسج پرلڑائی چل رہی تھی ،انہوں نے رات کو میسج کیا جسے میں نے صبح فجرکی نماز کے بعد تسبیح پڑھتے ہوئے دیکھا،ان کا سوال تھاکہ پھر چھوڑدیں مجھے میں نے جواب میں ہنس کرمیسج کیا کہ چھوڑدیا ،ساتھ میں کہا "ہوا ماردی میں نے"اورہنسنے لگا،میری طلاق کی کبھی نیت نہیں رہی میں نے چھوڑدیا ہوامیں مارنے کے خیال سے کہا اورمیں تسبیح کرتے ہوئے میسج بھی کررہاتھا اورمسکرابھی رہاتھاکہ پاگل ہے یہ ،میں اس کو کیوں طلاق دوں گا ، خدانخواستہ اس کے بعدمیں نے ان کو گڈمارننگ اورصبح بخیرکے میسج کئے ،ان  کا شام کو میسج آیاکہ آپ  کا میسج چھوڑدینے والامیں نے اپنی باجی کو بھیجاہے، ان کا کہناہے کہ ایساکہنے سے طلاق ہوجاتی ہے، اس بات نے میرا سرچکرادیا کہ میں نے تو طلاق کا سوچا بھی نہیں کیا کہہ رہی ہو؟میں نے کھاریاں کے مفتی صاحب سے بات کی، پوری بات بتائی، لفظ" چھوڑ دیا" کے بارے میں پوچھا کہ میں تسبیح پڑھ رہاتھا اورمسکرارہاتھااورچھوڑدیا کہا،اس کےبعدمیں نے کہاکہ ہوا  میں ماردی، چھوڑدیا ،اگریہ دیکھ رہی ہوتی تو کبھی بھی میری نیت پر شک نہ کرتی ،میں ان کو بالکل طلاق دینا نہیں چاہتا،لفظ کے ہیر پھیر نے میرا گھر خراب کردیاہے ،اللہ کو حاضر ناظرجان کر کہتاہوں کہ میں لفظ طلاق جانتاہوں کہ طلاق دینے سے طلاق ہوتی ہے نہ کہ چھوڑدیا کہنے سے اورآگے ہوا میں ماردی ساتھ کہا،کھاریاں کے مفتی صاحب نے فرمایاطلاق نہیں ہوئی، لیکن ان کو یعنی میری بیوی کو یقین نہیں تھا، اس لیے اس نے بات کی کہ آپ یہاں مشورہ کرلیں ،برائے کرم میراگھر بچانے کی صورت نکالیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں میاں بیوی میں طلاق کےالفاظ کے حوالے سے اختلاف ہےبیوی کے بقول الفاظ "نندسے بات کی توتمہیں طلاق" جبکہ شوہر کے بقول اس نے الفاظ "میری بہن سےبات کی تومیں تمہیں طلاق  دیدوں گا " کے استعمال کیے ہیں جس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگرمیاں  بیوی کے درمیان  طلاق کے بارے میں  اختلاف ہوجائے توقضاءً شوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوتی ہے، البتہ اگربیوی گواہ پیش کردے تو پھر اس کی بات کا اعتبار کیا جاتاہے ،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  اگر بیوی کے پاس  دو عادل گواہ  ہیں  (صرف ایک گواہ کافی نہیں)تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا ورنہ  قضاءًشوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی.تاہم اگر مذکورہ  خاتون نے اپنے  کانوں  سے  طلاق کے ایسےالفاظ  سنےہیں یامیسج میں دیکھیں ہیں جن سے طلاق واقع ہوتی ہے،تواس کا حکم آگے آرہاہے۔یہ توپہلے دومعلق طلاقوں کا حکم تھا۔

تجدیدِنکاح کے بعد شوہر اوربیوی اس بات پرمتفق ہیں کہ شوہرنے بیوی کو آزاد کا لفظ کہاہے(اوراس کے بعد چھوڑدیا کالفظ کہاہے)بس نیت میں اختلاف ہے بقول شوہراس سے نکاح سے آزادی مراد نہیں ہے بلکہ دیگرآزادیاں جیسےگھرسے نکلنا،کہیں جانا اورشاپنک وغیرہ کی آزادی مراد ہے جبکہ بیوی جوکیفیت  لکھ کراورفون پربیان کررہی سے اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس سے خاوند کی مراد نکاح سے آزادی ہےاورشوہر اب تاویل کررہاہے ۔

قرائن سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں مراد نکاح سے آزادی ہے کیونکہ غصے اورجھگڑے کی حالت میں کوئی شاپنگ کی آزادی اوردیگرسہولت والی آزادیوں کی بات نہیں کرتا، لہذاعرف کے مطابق لفظ آزادسے رجعی یابائن طلاق واقع ہوگئی  ہےجوپچھلی دو کے ساتھ ملکر یہاں تک کل تین طلاقیں مکمل ہوگئی ہیں۔

اوراگرپچھلے دو الفاظ  میں شوہر کا قول لیاجائےکہ اس نے "دوں گا"کالفظ استعمال کیاہے،توپھراگلے دو الفاظ(آزاد اورچھوڑدیا) میں یہ تفصیل ہے کہ اگر لفظ آزاد سے  رجعی مراد ہو یابائن مرادہواوراگلالفظ "چھوڑدیا"عدت میں کہاہوتو ان سے دو طلاقیں واقع ہوجائیں گی ۔

بہرحال مسئولہ صورت میں بقول عورت تین  ورنہ دوطلاقوں کا وقوع ہوا ہے،خاوند یاتو الفاظ بدل رہاہے یا نیت میں تاویل کررہاہے ۔

لہذا عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ اگراس  نے اپنے  کانوں  سے  طلاق کےیہ الفاظ  سنےہیں یامیسج میں دیکھے ہیں اور اس کو  یہ یقین  ہے کہ خاوندنےطلاق دی ہے اوراب وہ  غلط بیانی کررہا ہے اورالفاظ بدل رہاہے  تو دیانةً اسکےلیےحکم یہ ہے کہ وہ اپنے اوپر تین طلاقوں کو واقع سمجھے، اگرچہ شوہرانکار کررہاہو اوراس بات پرقسم کھانے کیلئے بھی تیار  ہو،کیونکہ عورت اس معاملہ میں  قاضی کی طرح ہے اورقاضی کو جب حق معلوم ہوتو اس کے لیے اس کے خلاف فیصلہ کرناجائز نہیں ہوتا، لہذا مذکورہ عورت اپنے حق میں  احتیاطاً  تین طلاقوں کوواقع سمجھتے ہوئے شوہر کواپنے اوپرجماع وغیرہ کے لیےہرگز قدرت  نہ دے،اوراس سے خلع لینےیاکسی اورجائز طریقے سےراہِ فرار اختیارکرنےکی کوشش کرے، تاہم  اگروہ خاوندسے خلع لینے اورجائز طریقے سے راہِ فرار اختیارکرنے پر قادرنہیں تو پھرعدالت سے رجوع کرے اگر عدالت بھی بیوی کے پاس گواہ نہ ہونے کی وجہ سے  خاوند سے حلف لیکر اس کے حق میں فیصلہ کرلے تو پھر اس پرمذکورہ خاوند کے ساتھ رہنے میں گناہ نہیں ہوگا،اورساراگناہ خاوند کے سرہوگا۔

حوالہ جات
وفی الدر المختار (۳۵۶/۳):
( فإن اختلفا في وجود الشرط ) ۔۔۔ ( فالقول له مع اليمين ) لإنكاره الطلاق۔۔۔ ( إلا إذا برهنت ) وفی الرد تحتہ:
قوله ( إلا إذا برهنت ) وكذا لو برهن غيرها.
وفی الشامیۃ (۳۵۶/۳):
( قوله في وجود الشرط ) أي أصلا أو تحققا كما في شرح المجمع : أي اختلفا في وجود أصل التعليق بالشرط أو في تحقق الشرط بعد التعليق وفي البزازية : ادعى الاستثناء أو الشرط فالقول له ۔۔۔ قوله ( قالقول له ) أي إذا لم يعلم وجوده إلا منها ففيه القول لها في حق نفسها.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 358):
فإن اختلفا في وجود الشرط......لا بد من شهادة رجلين أو رجل وامرأتين جوهرة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 465):
(و) نصابها (لغيرها من الحقوق سواء كان) الحق (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال صبي)
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 372)
(و) نصابها (لغيرها) من الحقوق سواء كان (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال الصبي للإرث رجلان أو رجل وامرأتان) لما روي أن عمر وعليا - رضي الله تعالى عنهما - أجازا شهادة النساء مع الرجال في النكاح والفرقة كما في الأموال وتوابعها (ولزم في الكل) في الصور الأربع المذكورة (لفظ أشهد للقبول) حتى لو قال الشاهد أعلم أو أتيقن لا تقبل شهادته لأن النصوص وردت بهذا اللفظ، وجواز الحكم بالشهادة على خلاف القياس فيقتصر على مورد النص(ولزم أيضا العدالة)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمه الله تعالى :
بخلاف فارسية قوله : سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري(رد المحتار، 299/3 )
قال العلامۃ ابن عابدین رحمه الله تعالى  : فإن سرحتك كناية ،لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك ،يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا ؛لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت.
(رد المحتار 299/3 )
قال العلامة ابن نجيم رحمه الله تعالى :
 ومشايخ خوارزم من المتقدمين ومن المتأخرين كانوا يفتون بأن لفظ التسريح بمنزلة الصريح، يقع به طلاق رجعي بدون النية كذا في المجتنى(البحر الرائق ،325 / 3)
رد المحتار (10/495):
"(قوله: ويقع الطلاق إلخ) يعني: إذا قال لامرأته: أعتقتك، تطلق إذا نوى أو دل عليه الحال."
وفی فتاوی جامعة الرشید علی الشبکة( رقم :79364)
لفظِ آزاد سے طلاق واقع ہونے،نہ ہونے کے سلسلے میں یہ تفصیل ہے ،کہ اس لفظ کے استعمال کی درج ذیل تین حالتیں ہیں:
1:کلام میں ایسا لفظی قرینہ موجود ہو جس سے یہ لفظ غیر طلاق کے لئے متعین ہوتا ہو،تو ایسی صورت میں یہ لفظ لغو ہے،یعنی اس سےکوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
:2کلام میں ایسا لفظی قرینہ ہو جس سے یہ لفظ معنی طلاق کے لئے متعین ہوتا ہو،تو ایسی صورت میں  عرف کی وجہ سےیہ لفظ صریح شمار ہوگا،لہٰذا س سے رجعی واقع ہوجاتی ہے اور اس کے بعد دوسری بائن بھی واقع ہوجاتی ہے۔
3:لفظِ آزاد کلام میں اس طرح استعمال ہو کہ کلام میں طلاق یا غیر طلاق کسی قسم کا قرینہ موجود نہ ہو،ایسی صورت میں یہ لفظ صرف کنایات میں سےہے جن سے طلاق واقع ہونے کے لئےبہر حال نیت شرط ہےاور نیت کے ہوتے ہوئے ایک بائن طلاق واقع ہوتی ہے،اور اس کے بعد دوسری بائن طلاق لاحق نہیں ہوتی۔
مذکورہ تفصیل کے بعد چونکہ سائل کے عرف میں یہ لفظ طلاق کے لئے متعین نہیں ہے اور بقولِ سائل یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے طلاق کی نیت بھی نہیں تھی اس لئے مذکورہ لفظ سےطلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔
وفی الدر المختار  (3/ 306):
" (الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح)".
وفی فتاوی بنوری ٹاؤن علی الشبکة:
"طلاق بائن کے بعد عدت کے دوران اگر لفظ "طلاق یا چھوڑنا" جیسے صریح الفاظ سے طلاق دی جائے تو وہ طلاق واقع ہوجاتی ہے، عدت کے بعد واقع نہیں ہوتی، تاہم طلاقِ بائن کے بعد عدت کے اندر یا عدت کے بعد کنائی الفاظ سے دی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی" 
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 306(:
(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 251) :
المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله.
وفى حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 420) :
 ( سمعت من زوجها أنه طلقها ولا تقدر على منعه من نفسها ) إلا بقتله ( لها قتله ) بدواء خوف القصاص ، ولا تقتل نفسها.
 البحر الرائق (4/ 62  ،دار المعرفة، بيروت):
 إن قدرت على الهروب منه لم يسعها أن تعتد وتتزوج بآخر لأنها في حكم زوجية الأول قبل القضاء بالفرقة ثم
رمز شمس الأئمة الإوزجندي وقال قالوا هذا في القضاء ولها ذلك ديانة وكذلك إن سمعته طلقها ثلاثا ثم جحد وحلف أنه لم يفعل وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضا.
وقال الأوزجندي: ترفع الأمر للقاضي، فإن حلف ولا بينة فالإثم عليه. وقال ابن عابدین: (قوله: فالإثم عليه) أي وحده، وينبغي تقييده بما إذا لم تقدر على الافتداء، أو الهرب (ردالمحتار على الدرالمختار، كتاب الطلاق، باب الرجعة،55/5)
تبيين الحقائق (2/ 198 ،دار الكتب الإسلامي):
لو قال لها أنت طالق ونوى به الطلاق عن وثاق لم يصدق قضاء ويدين فيما بينه وبين الله تعالى لأنه خلاف الظاهر والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 304):
قال في الفتح: والتأكيد خلاف الظاهر، وعلمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. اهـ.
   القران الکریم  [البقرة: 230]:
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ }
 الفتاوى الهندية (1 / 473):
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز.

  سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

26/6/ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے