021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیماری سے تندرستی کے لیے منت ماننے کا حکم
78975قسم منت اور نذر کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

آج سےتقریبا پانچ ماہ قبل میرا بیٹاشدید زخمی ہو گیا تھا۔ اس کی بیماری کے دوران میں نے نیت کی تھی اور منت مانی تھی کہ جب میرا بیٹا ٹھیک ہو گا تو اسے عمرے پر لے جاؤں گی۔ اس کے لیے میں نے کمیٹی بھی ڈالنی شروع کر دی تھی۔ دس دن پہلے میرے بیٹے کا قضائے الٰہی سے انتقال ہو گیا۔ اب پوچھنا یہ تھا کہ میری منت کا کیا بنے گا؟

مجھے کیا کرنا چاہیے؟

کیا مجھ پر عمرہ واجب ہے؟ اگر واجب ہے تو فوری یا تاخیر بھی ہو سکتی ہے؟

شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر مشکور ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرکسی شخص نے نذر (منت) کو کسی شرط کے ساتھ معلق کر دیا تو جب بھی وہ شرط پوری ہوجاتی ہےنذر ماننے والے  پر نذر کا پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے اور اگر وہ شرط پوری نہ ہو تو نذر کا پورا کرنا بھی واجب نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسؤلہ کے مطابق جب بیٹا صحت یاب نہ ہوا تو شرط پوری نہ ہوئی ، اس لیے نذر کا پورا کرنا یعنی عمرہ واجب نہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 735):
"(ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر) لحديث «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» (كصوم وصلاة وصدقة)"
الفتاوى الهندية (6/ 394):
 "وكذا لو قال : علي حجة سواء كان النذر مطلقا أو معلقا بشرط ، بأن قال إن فعلت ، كذا فلله علي أن أحج حتى يلزمه الوفاء إذا وجد الشرط ولا يخرج بالكفارة في ظاهر الرواية"
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 115):
"قال - رحمه الله - (ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط ووجد وفى به) أي وفى المنذور هذا إذا سمى شيئا وإن لم يسم فعليه كفارة يمين فيهما أعني في المطلق والمعلق لكن يجب في الحال في المطلق وعند وجود الشرط في المعلق لأن المعلق كالمنجز عنده"
البناية شرح الهداية (6/ 143):
"(وإن علق النذر بشرط) ش: بأن قال إن شفى الله مريضي أو رد الله غائبي أو مات عدوي فعلي صوم شهر أو سنة م: (فوجد الشرط فعليه الوفاء) ش: بتعيين م: (بنفس النذر) ش: ولا يخرج عنه بالكفارة م: (لإطلاق الحديث) ش: المذكور، فإنه لم يفصل بين كون النذر مطلقًا أو معلقًا بشرط م: (ولأن المعلق بالشرط كالمنجز عنده) ش: أي عند وجوده ولو نجز النذر عند وجود الشرط لم تجزئه الكفارة، فكذا هنا"
فتح القدير (10/ 478):
"بخلاف ما إذا كان شرطا يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي لانعدام معنى اليمين فيه وهذا التفصيل هو الصحيح ."

احمد الر حمٰن

دارالافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

23/جمادی الثانی/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب