021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دکان اور فلیٹ کی تعمیر سے قبل کرایہ وصول کرنا
78978اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں ؟ میں پراپرٹی کا کاروبار کرتاہوں اور کمرشل پلازے بناتا ہوں ،ہم جب زمین خرید لیتے ہیں تو پھر اس کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق ریٹ بنتے ہیں،اگرکوئی کسی دوکان یا فلیٹ کی قیمت یکشمت اداکرے تو ہم اس وقت اس کو فائل بنادیتےہیں،تو وہ اس پلاٹ میں چاہیے ایک فٹ زمین اس کے حصے میں آئےیا ایک انچ،وہ اس کا مالک بن جاتاہے،دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ کچھ عرصہ بعد اس کو بیچنا چاہے تو نفع ہوتو بھی اس کا اور نقصان ہوتو بھی اس کا ۔اور اگر پلازہ بن جاتا ہے اور گرجاتاہے تو بھی زمین میں اس کا حصہ باقی رہتا ہے ،چاہے چھٹی منزل پر فلیٹ ہو۔اس طرح اگر ہم کسی سے دکان یا فلیٹ کے پورے پیسے یکمشت لے لیتے ہیں اور اس کے بعد اس کے اس زمین کے حصے کا کرایہ اس کو دیتے رہتے ہیں جب اس پر دکان یا فلیٹ نہیں بنتا تو کیا یہ کرایہ جو ہم اس کو اس کی زمین کے حصے کا دے رہے ہیں  ٹھیک ہے ؟اور یہ سب کچھ اس وقت ہوتاہے جب پلاٹ ہمارے قبضہ میں ہوتاہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زیر تعمیر بلڈنگ میں نقشہ دیکھ کر  دوکان/ فلیٹ   کی بکنگ کرنا عقد استصناع  کے طور پر جائز ہے اور اس عقد میں جب تک وہ  چیز مستصنع(آرڈر دینے والے) کے  قبضہ میں نہ آجائے  اس میں اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی ،لہذا اسے کرایہ پر  نہیں دیا جاسکتا  اور نہ اس کا کرایہ وصول کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح ایک پلازہ کے اندر زمین میں شرکت بھی مشترک طور پر ثابت ہوتی ہے،اس لیے ایسی زمین کا کرایہ لینابھی درست نہیں ہے۔

البتہ اگر باہمی طور پر قیمت طے ہونے کے بعد، خریدار کی جانب سے یکمشت ادائیگی پرپلازہ مالک، قیمت میں کمی کرکے،ماہانہ طور پریہ ڈسکاؤنٹ  دیتا ہے،تویہ  اضافی رقم سود نہیں ہے، بلکہ اسے پلازہ مالک کی طرف سے قیمت میں کمی(حط ثمن) قرار دیا جاسکتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں پلازہ مالک کی طرف سے واپس کیے جانے والے پیسے

خریدار  کیلئے لینے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (5/2):
هو (اي الإستصناع) عقد على مبيع في الذمة شرط فيه العمل۔  وحكم الاستصناع فهو ثبوت
الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم۔  
المعاییر الشرعیۃ: (الاستصناع و الاستصناع الموازی، 7/6(:
یجوز ان یتضمن عقد الاستصناع شرط جزائیا لتعویض المستصنع عن تاخیر التسلیم بمبلغ یتفق علیہ الطرفان اذا لم یکن التاخیر ننتیجۃ لظروف قاھرۃ او طارئۃ۔
الهداية شرح البداية (3/60):
قال ويجوز للمشتري أن يزيد للبائع في الثمن ويجوز للبائع أن يزيد للمشتري في المبيع ويجوز أن يحط من الثمن ويتعلق الاستحقاق بجميع ذلك فالزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد عندنا۔ 
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 47):
(و) تفسد أيضا (بالشيوع) بأن يؤجر نصيبا من داره أو نصيبه من دار مشتركة من غير شريكه أو من أحد شريكيه أنفع الوسائل وعمادية من الفصل الثلاثين.واحترز بالأصلي عن الطارئ فلا يفسد على الظاهر، كأن آجر الكل ثم فسخ في البعض أو آجرا لواحد فمات أحدهما أو بالعكس وهو الحيلة في إجارة المشاع،
وفی الشامیة:
"اجارۃ المشاع فانما جازت عندہ من الشریک دون غیرہ ، لان المستاجر لایتمکن من استیفاء ما اقتضاہ العقد الا بالمھایاۃ ، و ھذا المعنی لا یوجد فی الشریک۔ افادہ الاتقانی : ای :  لان الشریک ینتفع بہ بلا مھایاۃ فی المدۃ کلھا بحکم العقد وبالملک بخلاف غیرہ

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

23/جمادی الثانیہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب