021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیررضامندی کےدستبرداری کی تحریرپرانگوٹھالگانےکا حکم
78990میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرے نانا کی وفات کے بعد میرے ماموؤں نے جائیداد پر قبضہ کرلیا،تیس،چالیس  سال اپنے قبضے میں رکھنے کے بعد جب 2009 میں میری والدہ نے اپنے بھائیوں سے اپنے حصے کا مطالبہ کیا تو بھائیوں نے میری والدہ سے ایک دستبرداری کی تحریر پر انگوٹھا لگا کر اپنے شرعی حصے سے بہت کم دے کر باقی حصوں سے دستبردار کی گئی ،جس پر میرے والدہ دلی  طورپرراضی نہیں تھی۔ کیوں کہ اگر والدہ انگوٹھا نہ لگاتی تو جو حصہ انگوٹھا لگا کرملاتھا وہ بھی نہ ملتا،اس خوف سےدستبرداری تحریرنامہ پرانگوٹھالگایاتھا۔

 جو زمین میری  والدہ کو دی گئی تھی، نہ تو اس کی حد بندی کی گئی اور نہ ہی قبضہ دیا گیا، کیوں  کہ وہ ایک مشتر کہ زمین تھی،صرف ایک تحریر پر لکھا ہے کہ فلاں زمین میں آپ کا 4500 فٹ حصہ ہے اور اس تحریر پر میری والدہ کاانگوٹھا لگوایاتھا۔اب میری والدہ ازسرِ نو جائیداد کی تقسیم چاہتی ہیں،تاکہ وارثت میں اپنا پورا حق حاصل کر سکے۔ آپ ازروئے شریعت وضاحت فرمائیں۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ کل زمین بیس ہزار فٹ بنتی تھی اور یہ زرعی زمین تھی، جس کو ماموں نے ٹھیکہ پر دے کر اس کا کرایہ وصول کرتا تھا، والدہ نے ۲۰۰۹ء میں مطالبہ کیا تھا، جس پر ماموں نے ساڑھے چار ہزار فٹ دی اور کہا کہ اس تحریر پر دستخط کر کے لے لو، ورنہ یہ بھی نہیں ملے گی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وراثت کی تقسیم ایک شرعی حق ہے، جس کی پاسداری تمام ورثاء کی شرعی ذمہ داری ہے، نیز وراثت میں نقدی، مال وجائیداد اور سامان سمیت تمام چیزیں شامل ہوتی ہیں اور ان سب کو شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کرنا ورثاء کے ذمہ لازم ہوتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں آپ کے ماموں کا تیس،چالیس  سال تک آپ کی والدہ کا شرعی حصہ اپنے قبضے میں رکھنا ہرگز جائز نہیں تھا، جس کی وجہ سے وہ سخت گناہ گار ہوئے ہیں، لہذا اس پر اللہ تعالیٰ  سے توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے۔

جہاں تک آپ کی والدہ کے حصے کا تعلق ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ  اگر کوئی وارث اپنی خوشی سے موروثہ جائیداد میں سے کچھ حصہ لے کر بقیہ حصہ دیگر ورثاء کےلیے چھوڑ دے تو شرعاً یہ درست ہے اور ایسی صورت میں اس شخص کا حصہ جائیداد میں سے ختم ہو جاتا ہے، اس کو فقہائے کرام رحمہم اللہ کی اصطلاح میں تخارج (ورثہ کا اپنے ذاتی مال یا موروثہ جائیداد میں سے کچھ حصہ لے کر بقیہ بطورِ صلح بیچ دینا) کہا جاتا ہے،  لیکن اگر کوئی وارث دلی رضامندی کے بغیركسی مجبوری كے پيشِ نظر اپنا حصہ معاف کردے تو اس صورت میں حصہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ بدستور اس کا حصہ باقی رہتا ہے جس کی ادائیگی دیگر ورثاء کے ذمہ لازم ہوتی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ  نے دلی رضامندی کے بغیر مذکورہ تحریر پر اس ڈر سے انگوٹھا لگایا تھا کہ اگر اس  نے انگوٹھا نہ لگایا تو یہ حصہ بھی نہیں ملے گا  تو اس صورت میں اگرچہ تحریر پر انگوٹھا لگانے سے قضاءً آپ کی والدہ اپنے حصے کا اب عدالت سے مطالبہ نہیں کر سکتی، لیکن دل سے اپنا حصہ معاف نہ کرنے کی وجہ سے دیانتاً یہ حصہ بدستور باقی ہے اور بھائیوں کے لیے اس کو استعمال کرنا جائز نہیں، کیونکہ حدیثِ پاک میں وارد ہے کہ کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں، لہذا آپ کی والدہ دیانتاً اپنے  اپنے بھائیوں سے بقیہ  شرعی حصے کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں۔

نیز جس وقت آپ کی والدہ نے اپنے حصے کا مطالبہ کیا اور آپ کے ماموں نے ان کا شرعی حصہ ان کے حوالے نہیں کیا تو اس کے بعد سے لے کر اب تک آپ کے ماموں پر دیانتاًآپ کی والدہ کے بقیہ حصے کی اجرتِ مثل واجب ہو گی، کیونکہ  سوال میں تصریح کے مطابق یہ زرعی زمین تھی جس کو بھائی ٹھیکہ پر دے کر اجرت وصول کرتا تھا، لہذا اتنا عرصہ وہ زمین ٹھیکے پر دی جانے کی صورت میں عام طور پر جو اجرت لی جاتی ہو وہ دینا لازم ہو گی، البتہ آپ کی والدہ بہن ہونے کے ناطے کچھ اجرت لے لے اور کچھ اجرت اپنے بھائی کو معاف کر کے آپس میں صلح کا معاملہ کر لیں تو اس میں ان کو بہت اجروثواب ملے گا اور رشتہ داری کے تعلقات بھی ان شاء اللہ درست رہیں گے۔

حوالہ جات
القرآن الکریم: [النساء: 29]:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ }
مسند أحمد (34 / 560)دارالرسالة، بيروت:
 عن عمرو بن يثربي، قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ألا لا يحل لامرئ من مال أخيه شيء، إلا بطيب نفس منه "
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 198) دار احياء التراث العربي، بيروت:
فصل: في التخارج:  قال: "وإذا كانت الشركة بين ورثة فأخرجوا أحدهم منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض جاز قليلا كان ما أعطوه إياه أو كثيرا" لأنه أمكن
تصحيحه بيعا. وفيه أثر عثمان، فإنه صالح تماضر الأشجعية امرأة عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه عن ربع ثمنها على ثمانين ألف دينار.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (4 / 40) دار الجيل،بيروت:
 إذا أخرج بعض الورثة وارثا منهم من التركة بإعطائه مقدارا من المال فإذا كانت التركة عروضا وعقارا كان التخارج صحيحا , ولا فرق في أن يكون بدل الصلح أقل , أو أكثر من الحصة الإرثية ............. أما إذا كان في التركة نقود أي ذهب وفضة، وكان فيها غير النقد عروض وعقار فينظر، فإذا كان بدل الصلح عروضا، أو عقارا فالصلح صحيح سواء كانت قيمة البدل المذكور لحصته أو كانت أزيد، أو أنقص منها لعدم الربا.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 320) دار إحياء التراث العربي:
وفي التنوير: وإذا أخرجوا واحدا فحصته تقسم بين الباقي على السواء إن كان ما أعطوه من مالهم غير الميراث المشترك بينهم، وإن كان ما أعطوه له مما ورثوه من مورثهم فعلى قدر ميراثهم، والموصى له كوارث فيما قدمناه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 811) دار الفكر، بيروت:
وتقدم هناك أنهم لو أخرجوا واحدا، وأعطوه من مالهم فحصته تقسم بين الباقي على السواء وإن كان المعطى مما ورثوه فعلى قدر ميراثهم قال الشارح هناك وقيّده الخصاف بكونه عن إنكار فلو عن إقرار فعلى السواء اه فتأمله.
تکملة رد المحتار: 12/ 116، کتاب الدعوی باب دعوة النسب، ط: زکریا دیوبند:
 لو قال ترکت حقي من المیراث أو برئت منہا ومن حصتي لا یصح وهو علی حقہ لأن الإرث جبري لا یصح ترکہ․
شرح الأشباه والنظائر،ما يقبل الإسقاط من الحقوق وما لايقبله،ج3ص52:
لو قال الوارث:تركت حقي لم يبطل حقه إذ الملك لا يبطل بالترك․
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 128) دار الفكر-بيروت:
الإكراه. (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفسأو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا.
قال ابن عابدين: (قوله: متلفا نفسا) أي حقيقية أو حكمية كتلف كل المال فإنه شقيق الروح كما في الزاهدي قهستاني وتقييده بكل المال مخالف لما سيشير إليه الشارح آخرا عن القنية كما سنبينه إن شاء الله تعالى. (قوله: يعدم الرضا) أي مع بقاء الاختيار الصحيح.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 80) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 417) : المعد للاستغلال هو الشيء الذي أعد وعين على أن يعطى بالكراء كالخان والدار والحمام والدكان من العقارات التي بنيت واشتريت على أن تؤجر وكذا كروسات الكراء ودواب المكارين , وإيجار الشيء ثلاث سنين على التوالي دليل على كونه معدا للاستغلال والشيء الذي أنشأه أحد.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1 / 449) دار الجيل،بيروت:
يؤخذ من ذلك أن الأشياء المعدة للاستغلال ليست قاصرة على العقارات فقط كما ذهب إليه بل من الحيوانات والمنقولات ما يكون معدا للاستغلال وقد جرت المجلة على هذا القول (انظر المادة 596) وعلى هذه المادة يلزم المثل في الحيوانات والعقارات أيضا.
شرح المجلة (ج:2ص:699)لمحمد خالد الأتاسي، مكتبة رشيدية:
ومثل مال الوقف ومال اليتيم المعد للاستغلال سواء كان  عقارا أو منقولا، لا لأجل صيانته، بل لأن استعماله حال كونه معدا للاستغلال يحمل على الإجارة بمعنى أنه سكنه ملتزما للأجر، ولهذا اشترطوا لوجوب الأجرفيه أربعة شروط:الأول: أن لايستعمله بتأويل ملك كبيت  معدللاستغلال سكنه أحد الشركاء۔۔۔۔۔الثاني:أن لا يستعمله بتأويل عقد يُنبئ عن عدم التزام الأجرة كبيت الرهن المعد للإجارة۔۔۔۔۔۔الثالث:أن يكون للمستعمل علم بكونه معدا للاستغلال۔۔۔۔۔۔الرابع: أن لايكون المستعمل مشهورا بالغصب۔
فلو فقد شرط من هذه الشروط الأربعة، لا يلزم المستعمل أجر لظهور أنه باستعماله لم يم يكن ملتزما للأجر وهذا كله إذا لم يطالبه المالك بالأجر، وإلا فيجب ولو لم يكن معدا للاستغلال.
شرح المجلة (ج:2ص:700)لمحمد خالد الأتاسي، مكتبة رشيدية:
الثاني: کون المغصوب معدّا للاستغلال إنما يثبت إذا اشتراه صاحبه لذلك، أو بناه لذلك، أو اٰجره ثلاث سنين متواليات ولا يثبت بإعداد البائع لذلك بالنسبة إلى المشتري، بل لا بد أن يكون المشتري اشتراه لذلك وأخبر الناس  أو يؤجره بعد الشراء ثلث سنين متواليات . ولو بنى لنفسه لا للاستغلال ثم أراد أن يعدّه فإن قال بلسانه ويخبر الناس، صار بذلك معدّا للاستغلال، كما في الدر وحواشيه.
شرح المجلة (ج:2ص:478)لمحمد خالد الأتاسي، مكتبة رشيدية:
وتقییدہ الإجارة بثلاث سنوات فأكثر إنما هو في الدار ونحوها. وأما في الأرض فقد نقل الطحطاوي عن الذخيرة: ما نصه: في قرية اعتاد أهلها زراعة أرض الغير وكان صاحبها لا يزرع بنفسه بل يدفعها مزارعة فذلك على المزارعة ولصاحب الأرض أن يطالب المزارع بحصته على ما تعارفه أهل القرية من النصف أو الربع أو ما أشبه ذلك هكذا في فتاوي النسفي.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 207) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 1077) لو أجر أحد الشريكين المال المشترك لآخر وقبض الأجرة يعطي الآخر حصته منها ويردها إليه.
قال محمد خالد الأتاسي  في شرح المجلة (ج:3ص:20): يعني ديانة وإن كانت الأجرة المسماة تجب قضاء للعاقد لأن المنفعة قد تقومت بعقده  فكانت له، لكن يملكها ملكا خبيثا فيجب عليه أن يرد إلى شريكه قدر نصيبه منها لو قدر، وإلا تصدق به لتمكن الخبث فيه بحق شريكه، كما قدمناه، قريبا في شرح الفقرة الأولى من المادة(1075)  عن جامع الفصولين ونقل مثله في فتاوى الحامدية عن نورالعين، ثم  أفتى بعد ذلك بنحو  ورقتين أنه لواجر أحد الشريكين جانبا من الدار المشتركة ثم حضر شريكه فله أن يطالبه  بأجرة نصيبه من المأجور مستندا لما نقله أولا عن نور العين، فدل على أن مراده بقوله"فله أن يطالبه" أي ديانتة لا قضاء وحينئذ فلا مخالفة بين ما هنا وبين ماذكره في الخانية وغيرها من أنه لو اجر الغاصب المغصوب فالأجر المسمى له ولا شيئ للمالك وكذا  حكم الفضولي لو اجر ملك غيره، وذلك لأن المنافع لا تتقوم إلا بالعقد، فكانت الأجرة للعاقد، لأن هذا في القضاء فافهم.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/جمادى الاخرى 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب