021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چارے پر عشر کا حکم
78995زکوة کابیانعشر اور خراج کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہے مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں:

  1. کیا چارے پر عشر واجب ہے؟
  2. ہے تو کتنی مقدار میں؟
  3. عشر کنال یا مرلے پر ہوگا؟
  4. خراج اور عشر میں کیا فرق ہے؟

تفصیل:ہمارے علاقے کوٹ کمبوہ ضلع سرگودھا میں یہ رواج ہے کہ گندم، چاول، گنا جیسی فصلوں میں تو عشر ادا کرتے ہے مگر چارے میں نہیں کیا یہ درست ہے؟ اگر کوئی چارے میں عشر دے بھی رہا ہے تو وہ اس طرح سے کے بیس مرلے میں ایک  مرلہ میں یا اس  کی قیمت کا ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. واضح ہو کہ جو پیداوار مقصود نہ ہو،  بلکہ وہ پیداوار کے ساتھ ضمنی طور پر حاصل ہوجائے یا مقصودی پیداوار کے ساتھ خود بخود اُگ آئے، جیسے گھاس پتے وغیرہ، اصولی طور پر ان میں عشر واجب نہیں ہوتا۔لہٰذا صرف چارہ اگرمقصودی طور پر اُگایا جاتا ہے تو اس میں عشر واجب ہوگا ۔ اگر چارہ کسی اور مقصودی پیداوار کے ساتھ اُگتا ہے تو پیداوار میں تو عشر واجب ہوگا چارے میں نہیں۔
  2. واضح رہے کہ اگر عشری زمین کو  سال کے اکثر حصہ میں ایسے پانی سے سیراب کیا جائے  جس میں خرچہ نہ آتا ہو  یعنی قدرتی آبی وسائل (بارش، ندی، چشمہ وغیرہ) سے سیراب کی جائے    تو اس میں عشر ( کل پیداوارکا دسواں حصہ یعنی  ٪10) واجب ہوتا ہے، اور اگر  زمین کو  ایسے پانی سے سیراب کیا جائے  جس میں خرچہ آتا ہو  یعنی  اس  زمین کو  مصنوعی  پانی پہنچانے  کے آلات ووسائل (مثلاً: ٹیوب ویل یا خریدے ہوئے پانی  سے سیراب کی جائے تو اس میں نصفِ عشر ( کل پیداوار کا بیسواں حصہ  یعنی٪5) واجب ہوتا ہے۔
  3. مذکورہ بالا تناسب سے زمین کےساری  پیداوار میں واجب ہوگا، کنال یا مرلے کا اعتبار نہیں ہوگا۔
  4. خراج  اسلامی حکومت کی طرف سے زمینوں پر عائد ٹیکس کو کہتے ہیں، خراجی زمینوں کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً مسلمانوں نے کفار کی زمین فتح کر کے وہیں والوں کو احسان کے طور پر واپس دی یا دوسرے کافروں کو دے دی، یا وہ ملک صلح کے طور پر فتح کیا گیا، یا ذمّی نے مسلمان سے عشری زمین خرید لی، یا خراجی زمین مسلمان نے خریدی، یا ذمّی نے بادشاہِ اسلام کے حکم سے بنجرکو آباد کیا، یا بنجر زمین ذمّی کو دے دی گئی، یا اسے مسلمان نے آباد کیا ،اور وہ خراجی زمین کے پاس تھی یا اسے خراجی پانی سے سیراب کیا، ان تمام صورتوں میں مذکورہ زمینوں پر خراج آئےگا، اور یہ زمینیں خراجی زمینیں کہلائےگی جبکہ عشر زمین کی پیداوار کی زکاة کا نام ہے ، اِن کے علاوہ تمام زمینیں عشری زمینیں کہلاتی ہے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 186)
وما سقي بالدولاب والدالية ففيه نصف العشر وإن سقي سيحا وبدالية يعتبر أكثر السنة فإن استويا يجب نصف العشر كذا في خزانة المفتين
الدر المختار (2/ 326)
( و ) تجب في ( مسقى سماء ) أي مطر ( وسيح ) كنهر ( بلا شرط نصاب ) راجع للكل ( و ) بلا شرط ( بقاء ) وحولان حول
بدائع الصنائع (2/ 63)
وأما صفة الواجب  فالواجب جزء من الخارج لأنه عشر الخارج أو نصف عشره وذلك جزؤه إلا أنه واجب من حيث أنه مال لا من حيث أنه جزء عندنا حتى يجوز أداء قيمته عندنا
"الفتاوى الهندية "(1/ 186):
"ويجب العشر عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - في كل ما تخرجه الأرض من الحنطة والشعير والدخن والأرز، وأصناف الحبوب والبقول والرياحين والأوراد والرطاب وقصب السكر والذريرة والبطيخ والقثاء والخيار والباذنجان والعصفر، وأشباه ذلك مما له ثمرة باقية أو غير باقية قل أو كثر هكذا في فتاوى قاضي خان سواء يسقى بماء السماء أو سيحا يقع في الوسق أو لا يقع هكذا في شرح الطحاوي...وما سقي بالدولاب والدالية ففيه نصف العشر، وإن سقي سيحا وبدالية يعتبر أكثر السنة فإن استويا يجب نصف العشر كذا في خزانة المفتين".
تبيين الحقائق (1/ 280)
 اشترى بذرا للتجارة وزرعه فإنه يجب فيه العشر ولا تجب فيه الزكاة لأنهما لا يجتمعان على ما عرف في موضعه وإن لم يزرعه وجب فيه الزكاة بخلاف الخراجية حيث لا تجب فيها الزكاة وإن لم يزرعها لأن الخراج يجب بالتمكن من الزراعة فيمنع وجوب الزكاة إذ لا يشترط فيه حقيقة الزرع ولا كذلك العشر.

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

25 جمادی الثانی 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب