021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کاغذات میں گھر کا کچھ حصہ بیٹوں کے نام لکھوانے کا حکم
79290ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ہمارے والد صاحب اور ہمارے چچاؤں کا تیرہ (13) مرلہ پر مشتمل مشترکہ گھر تھا۔ ہمارے والد صاحب نے ان سے ان کے حصے خرید لیے، خریداری ہمارے والد صاحب نے اپنے پیسوں سے کی۔ یہ گھر جب ہمارے چچاؤں کا مشترکہ تھا تو اس میں تقریبا پونے چار مرلہ اور باقی سوا نو مرلہ کے درمیان دیوار تھی، پھر جب ہمارے والد نے اسے خریدا تو اس دیوار کو ختم کر کے پورا ایک گھر بنادیا۔ خریداری کے بعد تقریبا ایک سال میں قیمت ادا ہوئی، قیمت کی ادائیگی مکمل ہونے کے بعد جب انتقال کی بات آئی تو والد صاحب نے "مشتری" کے عنوان کے تحت اپنا اور ہم چار بھائیوں کا نام لکھواکر پونے چار مرلہ اپنے نام کے سامنے لکھوایا، اور دو، دو مرلہ سے کچھ زائد ہم چاروں بھائیوں میں سے ہر بھائی کے نام کے سامنے لکھوایا۔ انتقال کے اخراجات والد صاحب نے ہی ادا کیے۔ انتقال کا کاغذ آپ کو بھیج رہے ہیں۔ کاغذات میں دو مرلہ سے کچھ زائد حصہ ہر بھائی کے نام کے سامنے لکھوانے کے علاوہ والد صاحب نے ہمیں زبانی کچھ نہیں کہا کہ میں نے اتنا اتنا حصہ ہر ایک کو دیدیا ہے، نہ ہی ایسی کوئی تحریر لکھی ہے، البتہ بڑے بھائی سے یہ کہا تھا کہ آپ جیسے چاہیں، گھر کا انتقال کرادیں، لیکن مجھے بالکل نہیں نکالنا، کچھ حصہ میرے نام بھی کردیں۔ یہ 1997ء کی بات ہے، اس وقت ہم دو بھائی بالغ، جبکہ دو نابالغ تھے۔   

 ہماری پانچ (5) بہنیں بھی ہیں۔ اب ہمارے والد صاحب کا 2007ء میں انتقال ہوچکا ہے، والد صاحب آخر تک اسی گھر میں تھے، ہم چاروں بھائی بھی والد صاحب کے ساتھ اسی گھر میں تھے، گھر کی عملا تقسیم نہیں ہوئی تھی، اب بھی ہم سب اسی گھر میں ہیں۔ گھر میں چھ کمرے ہیں، دو کمرے ایک طرف، دو اس کے سامنے دوسری طرف اور دو کمرے ان دو کے پیچھے۔ گھر کو کاغذات کے مطابق پانچ حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے کمروں کو توڑنا پڑے گا اور ہر آدمی کا حصہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ والد صاحب کے بعد ہماری والدہ کا بھی انتقال ہوا۔ ہمارے والدین کے دادا، دادی اور نانی کا انتقال ان کی زندگی میں ہوا تھا۔ والد صاحب کی تجہیز وتکفین کے اخراجات ہم نے اپنی طرف سے ادا کیے تھے، کچھ قرض تھا جو والد کے  ترکہ سے ادا کیا ہے، وصیت انہوں نے کوئی نہیں کی۔  

اب سوال یہ ہے کہ اس گھر کی تقسیم کیسے ہوگی؟ کیا بھائیوں کے نام جو جو حصہ ہے، وہ انہی کا ہوگا، صرف والد صاحب کے نام پر جو حصہ ہے، وہ میراث میں تقسیم ہوگا؟ یا پورا گھر میراث میں تقسیم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس سوال کے جواب سے پہلے بطورِ تمہید چند باتیں سمجھنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

(الف)۔۔۔ والد اگر زندگی میں اپنے بچوں کو کچھ دیتا ہے تو وہ "ہبہ" یعنی گفٹ ہوتا ہے۔ ہبہ منعقد ہونے کے لیے ایجاب و قبول ضروری ہے، یعنی ہبہ دینے والایہ بات زبانی کہے یا لکھے کہ میں نے یہ چیز یا اس چیز کا اتنا حصہ فلاں کو دیا اور اتنا فلاں کو، اور جس کو ہبہ کیا جائے وہ اس ہبہ کو قبول کرے، یا پھر ہبہ کے ایسے واضح قرائن پائے جائیں جو "تملیک" یعنی مالک بنانے پر دلالت کرنے میں ایجاب وقبول کے قائم مقام ہو۔

(ب)۔۔۔ پھر ایجاب و قبول کے بعد اگر وہ چیز قابلِ تقسیم ہو تو اس میں ہبہ مکمل ہونے کے لیے تقسیم کر کے ہر ایک کو اس کے حصے کا قبضہ دینا بھی ضروری ہے، لیکن اگر وہ چیز ناقابلِ تقسیم ہو تو پھر تقسیم ضروری نہیں۔ ہر وہ چیز جس سے تقسیم کے بعد وہی نفع اٹھایا جاسکے جو تقسیم سے پہلے اٹھایا جاتا ہو، وہ قابلِ تقسیم کہلائے گی، اور جو چیز ایسی نہ ہو، وہ ناقابلِ تقسیم کہلائے گی۔  

(ج)۔۔۔ زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنے کا اصول یہ ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر برابر حصہ دیا جائے، البتہ اگر میراث کے طریقے پر بیٹے کو بیٹی سے دگنا حصہ دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے، لیکن بعض اولاد بالخصوص بیٹیوں کو بالکل کچھ نہ دینا یا ان کی میراث کے حصوں سے بھی کم دینا جائز نہیں، اگر کسی نے ایسا کیا اور ہبہ کی تمام شرائط مکمل ہوں تو ہبہ ہوجائے گا، لیکن وہ سخت گناہ گار ہوگا۔  

(د)۔۔۔ کوئی جائیداد وغیرہ کسی کے نام خریدنے کی درجِ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں:-

  1. ایجاب، قبول یعنی خریداری کاغذات ہی کے ذریعے ہو اور ان میں کسی اور کا نام لکھوایا جائے۔ اس میں وہ چیز خریدنے والے کی ہوگی، جس کے نام خریدی ہوگی، اس کی نہیں ہوگی۔ کیونکہ ایجاب وقبول سے پہلے وہ چیز خریدار کی ملکیت نہیں تھی، اس لیے یہ نام کرانا ہبہ نہیں ہوسکتا۔
  2. ایجاب، قبول کے بعد خریدار نے کسی مصلحت کی وجہ سے کاغذات میں کسی اور کا نام لکھوایا۔ اس صورت میں چیز اسی کی رہے گی، کاغذات میں جس کا نام لکھوایا ہوگا، اس کی نہیں ہوگی۔
  3. ایجاب، قبول کے بعد خریدار نے کاغذات میں کسی اور کا نام لکھا اور ساتھ ہی زبانی یا تحریری طور پر وہ چیز اس کو ہبہ کرنے کی صراحت بھی کی۔ اس صورت میں یہ ہبہ ہوگا؛ اور ہبہ کی شرائط پائے جانے کی صورت میں چیز اس شخص کی ملکیت میں چلے جائے گی جس کے نام کروائی ہوگی۔
  4. ایجاب، قبول کے بعد کسی خاص مصلحت کے بغیر کاغذات میں کسی اور کا نام لکھوایا، اور ہبہ کی کوئی صراحت نہیں کی۔ اس صورت میں اگر کاغذات میں کسی کے نام لکھوانے کو عرف میں ہبہ سمجھا جاتا ہو، یا ہبہ کی اور علامات اور قرائن موجود ہوں تو اسے ہبہ سمجھا جائے گا، ورنہ وہ چیز حسبِ سابق اصل خریدار کی ہوگی۔  

(ہ) سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آپ کا مسئلہ چوتھی (4) صورت میں داخل ہے؛ کیونکہ انتقال کے کاغذات ایجاب و قبول کے تقریبا ایک سال بعد بنے ہیں، والد نے بیٹوں کے نام اپنے ساتھ کسی واضح مصلحت کے بغیر لکھے ہیں، ہبہ کی کوئی صراحت نہیں کی، البتہ دو قرائن ایسے ہیں جن سے بظاہر ہبہ کی نیت معلوم ہوتی ہے، ایک ان کا بڑے بیٹے سے یہ کہنا کہ مجھے بالکل نہ نکالیں، کچھ حصہ میرے نام بھی کردیں، جبکہ دوسرا ہر بیٹے کے نام کے سامنے برابر برابر حصہ لکھوانا۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کے عرف میں والد کا اپنے گھر یا زمین کے کاغذات میں اس طرح اپنے ساتھ بچوں کے نام بھی حصے لکھوانا ہبہ شمار کیا جاتا ہو تو آپ کے والد صاحب کا کاغذات میں اپنے ساتھ چاروں بیٹوں کے نام پر دو، دو مرلہ سے کچھ زائد زمین لکھوانا ان کی طرف سے ہبہ کا ایجاب سمجھا جائے گا۔ رہا "قبول" تو دو نابالغ بیٹوں کی طرف سے تو قبول کی ضرورت نہیں تھی، والد صاحب کا ایجاب ہی ان کی طرف سے قبول بھی تھا، جبکہ دو بالغ بیٹوں کا اپنے نام حصہ منتقل کرانے پر راضی ہونا ان کی طرف سے قبول تھا۔ پھر سوال میں ذکر کردہ تفصیل (گھر کو کاغذات کے مطابق پانچ حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے کمروں کو توڑنا پڑے گا اور ہر آدمی کا حصہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا) کے مطابق یہ گھر ناقابلِ تقسیم ہے، اس لیے گھر کا تقسیم نہ ہونا ہبہ کی صحت سے مانع نہیں۔ جہاں تک قبضہ کی بات ہے تو دو نابالغ بیٹوں کی طرف سے تو قبضہ کی ضرورت نہیں تھی، ان کی طرف سے والد کا قبضہ ہی کافی تھا، اور دو بالغ بیٹے چونکہ والد صاحب کے ساتھ اسی گھر میں رہ رہے تھے اور انتقال تک رہتے رہے؛ اس لیے یہ ان کی طرف سے قبضہ شمار ہوگا، کیونکہ ہر چیز کا قبضہ اس کے مناسب ہوتا ہے، اور اس طرح ناقابلِ تقسیم گھر میں مشاع حصے کے قبضہ کی ایک صورت یہ ہے کہ اس میں مشترکہ رہائش رکھی جائے۔ اس صورت میں اب والد صاحب کے انتقال کے بعد صرف ان کے نام پر لکھا ہوا حصہ بطورِ میراث تقسیم ہوگا، ہر بیٹے کے نام جتنا حصہ لکھوایا گیا ہے، وہ صرف اس بیٹے کا ہوگا۔ اس صورت میں ارکان اور شرائط پائے جانے کی وجہ سے اگرچہ یہ ہبہ مکمل شمار ہوگا، لیکن آپ کے والد صاحب بیٹیوں کو بالکل حصہ نہ دینے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے، اس لیے ایسی صورت میں اگر آپ سب بھائی اپنی طرف سے بہنوں کو میراث کے حصوں کے علاوہ کچھ رقم وغیرہ اس نیت سے دیں کہ والد صاحب سے جو کوتاہی ہوئی ہے، اس کی تلافی ہوجائے تو ان شاء اللہ ان کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔

لیکن اگر آپ کے عرف میں والد کا اس طرح گھر یا زمین کے کاغذات اپنے ساتھ بچوں کے نام پر بھی حصے لکھوانے کو ہبہ نہیں سمجھا جاتا، بچوں کے نام ویسے ہی لکھے جاتے ہوں، باقی پورے گھر اور  زمین کا اصل مالک والد ہی کو سمجھا جاتا ہو تو پھر صرف کاغذات میں نام لکھوانے سے آپ چاروں بھائی ان حصوں کے مالک نہیں بنے۔ اس صورت میں یہ پورا گھر بطورِ میراث تقسیم ہوگا۔

والد صاحب کی میراث کی تقسیم کا طریقہ:

والد صاحب کی میراث (مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق پورا گھر یا صرف ان کے نام کا حصہ، اور اس کے علاوہ کوئی سونا، چاندی، نقدی، سامانِ تجارت، گھریلو سامان وغیرہ جو کچھ انہوں نے چھوڑا ہو) تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے ترکہ کو کل تیرہ (13) حصوں میں تقسیم کر کے چار (4) بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو دو، دو (2، 2) حصے دیں، اور پانچ (5) بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو ایک، ایک (1، 1) حصہ دیں۔  

حوالہ جات
فقه البیوع (1/227-226):
و ما ذکر نا من حکم التلجئة یقاربه ما یسمی فی القوانین الوضعیة "عقودا صوریة" (Ostensible   Contracts)   و تسمی فی بلاد نا Benami     Contracts   ، و هی أن تشتری أرض باسم غیر المشتری الحقیقی، و تسجل الأرض باسمه فی الجهات الرسمیة، و ذلك لأغراض ضریبیة أو لأغراض أخری، و لکن المشتری الحقیقی هو الذی دفع ثمنه. و عدة من القوانین الوضعیة تعترف بکونها صوریة، و بأن العبرة فیما بین المتعاقدین بالعقد الحقیقی المستتر……… وعلی هذا الأساس أفتی علماء شبه القارة الهندیة بأن مجرد تسجیل الأرض باسم أحد لا یستلزم أن یکون هو مالکا لها، فلو اشتراها أحد باسم رجل آخر لم یدفع الثمن، و إنما دفع الثمن من قبل الأول، فمجرد هذا التسجیل لایعنی أنه وهب له الأرض.
الدر المختار (5/ 688):
 (وتصح بإيجاب، كوهبت ونحلت وأطعمتك هذا  الطعام ولو ) ذلك ( على وجه المزاح ) بخلاف أطعمتك أرضي؛ فإنه عارية لرقبتها وإطعام لغلتها،  بحر ( أو الإضافة إلى ما) أي إلى جزء (یعبر به عن الكل كوهبت لك فرجها وجعلته لك) لأن اللام للتملیك، بخلاف"جعلته باسمك"، فإنه لیس بهبة، وکذا "هي لك حلال"، إلا أن یکون قبله کلام یفید الهبة، خلاصة.
رد المحتار (5/ 689):
قوله (بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله "لك"؛ لأنه لو قال "جعلته باسمك" لايكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: "جعلته لابني" يكون هبة، وإن قال: "باسم ابني" لا يكون هبة، ولو قال: "أغرس باسم ابني" فالأمر متردد، وهو إلى الصحة أقرب، اه. وفي المنح عن الخانیة بعد هذا: قال: "جعلته لابنی فلان" یکون هبة؛ لأن الجعل عبارة عن التمليك، وإن قال: "أغرس باسم ابني" لا يكون هبة، وإن قال: "جعلته باسم ابني" يكون هبة؛ لأن الناس يريدون به التمليك والهبة ا ه. وفيه مخالفة لما في الخلاصة كما لا يخفى ا ه. قال الرملي: أقول: ما في الخانية أقرب لعرف الناس. تأمل، اه. وهنا تكملة لهذه، لكن أظن أنها مضروب عليها لفهمها مما مر، وهي: وظاهره أنه أقره على المخالفة، وفيه أن ما في الخانية، فيه لفظ "الجعل"، وهو مراد به التمليك، بخلاف ما في الخلاصة ا ه، تأمل. نعم، عرف الناس التمليك مطلقا، تأمل.
شرح المجلة للعلامة الأتاسي (3/350-348):
أقول: وفي قوله (أي العلامة الشامي رحمه الله) "بخلاف ما في الخلاصة" نظر؛ لأن ما فیها أیضا لفظ الجعل؛ لأن قوله: وإن قال " باسم ابني الخ"، معناه "جعلته باسم ابني" لدلالة ما قبله علیه. وقول الرملي "أقرب لعرف الناس" هو عین قول الخانیة "لأن الناس یریدون" الخ. وقوله أخیراً "نعم عرف الناس التملیك مطلقا" أي سواء کان بلفظ الجعل أو بلفظ الغرس، وهذا الذي یظهر بالنظر لعرف الناس.
تنبیهان:  الأول: یستفاد من هذه المادة أن مجرد إعطاء الرجل لزوجته حلیا وتمتعها به لایکون تملیکا، بل لا بد أن یقول: خذیه أوعلقیه أونحو ذلك مما یکون تعبیرا یدل علی التملیك مجانا، حتی یکون إیجابا. ویؤیده ما في رد المحتار آخر کتاب الهبة……. لکن في رد المحتار أیضا أول کتاب الهبة ما نصه: أعطی لزوجته دنانیر لتتخذ بها ثیابا وتلبسها عنده، فدفعتها معاملة، فهي  لها (قنیة). اتخذ لولده ثیابا، لیس له   أن یدفعها لغیره، إلا إذا بین وقت الاتخاذ أنها عاریة.  وکذا لو اتخذ لتلمیذه ثیابا، فأبق التلمیذ، فأراد أن یدفعها لغیره (بزازیة)وکتب قبل هذا ما  نصه:   وفي خزانة الفتاوی: إذا دفع لابنه مالًا، فتصرف فیه الابن، یکون للأب، إلا إذا دلت دلالة التملیك (بیري).
قلت: فقد أفاد أن التلفظ بالإیجاب والقبول لایشترط، بل تکفي القراین الدالة علی التملیك، کمن دفع لفقیر شیئا وقبضه ولم یتلفظ واحد منهما بشیئ. وکذا یقع في الهدیة ونحوها فاحفظه. ومثله ما یدفع لزوجته أوغیرها، اه. 
ویظهر لي من مجموع هذه النقول أن الهبة کما تنعقد بالألفاظ الدالة علی التملیك مجانًا لغةً أو عرفًا، تنعقد أیضًا بالفعل بطریق التعاطي، کما ستأتي في المادة الآتیة، لکن مع قرینة لفظیة أو حالیة.   ومنها العرف والعادة، تعین أن ذلك الفعل أرید به التملیك. فاللفظیة، کقول الرجل في مسئلتنا "خذیه" أو "علقیه"، أو کما دفع لها دراهم وقال: اتخذي بها ثیابا والبسیها. وکذا لو قال لها "متعتك بهذه الثیاب" أو "بهذه الدراهم" کما في الهندیة عن محیط السرخسي.
والحالیة، کما إذا اتخذ لولده أو لتلمیذه ثیابًا؛ فإن الاتخاذ مشعر بمادته أنه فعل بالثیاب ما یجعلها ملایمة لهما طولًا وعرضًا، ونحو ذلك، فکان ذلك قرینة علی إرادة التملیك. أو یقال إن العرف في مثل هذا قرینة علی إرادته. وکذا إذا دفع لابنیه کل واحد منهما مبلغًا من الدراهم، وکل منهما تصرف بما في یده، ثم عمد إلی أحدهما فقال: إن ما دفعته له قرض، وهو یعترف بأن ما دفعه للآخر تملیك، فإن هذا قرینة حالیة علی إرادة التملیك بالدفع للأول أیضًا؛ لأن الظاهر التسویة بالعطیة بین الأولاد عرفًا وشرعًا، ولو لا هذه القرینة لکان القول قول الأب، وهکذا……… ومن تأمل في فروعهم في کتاب الهبة وجد أکثرها دائرًا مع القرائن اللفظیة أو الحالیة، فتأمل وراجع، ترشد.
ثم إن القرینة إنما تعتبر إذا لم یعارضها الصریح، وإلا بأن أشهد حین التسلیم أنه بطریق العاریة، فلا اعتبار لها؛ لأن الصریح أقوی من الدلالةوبما ذکرنا تتخلص عباراتهم من شائبة الانتقاص، وتنحسم عنها مادة الاعتراض.
 امداد الفتاوی (3/39-30 و 467-466):
بدائع الصنائع (5/ 244):
وأما تفسير التسليم والقبض فالتسليم والقبض عندنا هو التخلية والتخلي، وهو أن يخلي البايع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه، فيجعل البايع مسلما للمبيع، والمشتري قابضا له…..…. لنا أن التسليم في اللغة عبارة عن جعله سالما خالصا، يقال سلم فلان لفلان أي خلص له، وقال الله تعالى: { ورجلا سلما لرجل }، أي سالما خالصالايشركه فيه أحد، فتسليم المبيع إلى المشتري هو جعل المبيع سالما للمشتري، أي خالصا بحیث لاینازعه فیه غیره، وهذا یحصل بالتخلية، فكانت التخلية تسليما من البائع، والتخلي قبضًا من المشتري.
المجلة (ص: 54):
 مادة 263: تسليم المبيع يحصل بالتخلية، وهو أن يأذن البائع للمشتری بقبض المبیع مع عدم وجود مانع من تسلیم المشتری إیاه.
مادة 265: تختلف كيفية التسليم باختلاف المبيع.
مادة 270: العقار  الذي له باب وقفل كالدار والكرم، إذا وجد المشتري  داخله وقال له البائع  "سلمته إليك" كان قوله ذلك تسليما، وإذا كان المشتري خارج ذلك العقار فإن كان قريبا منه بحيث يقدر على إغلاق بابه وقفله في الحال يكون قول البائع للمشتري "سلمتك إياه" تسلیما أیضا، وإن لم يكن منه قريبا بهذه المرتبة، فإذا مضى وقت يمكن فيه ذهاب المشتري إلى ذلك العقار و دخوله فیه یکون تسلیما.
مادة 271: إعطاء مفتاح العقار الذي له قفل للمشتري يكون تسليما.
شرح المجلة للعلامة خالد الأتاسی (2/192):
شرح المادة 270: العقار  الذي له باب وقفل كالدار والكرم إذا وجد المشتري  داخله، أی لا علی وجه السکنی فی الدار، وإلا، کان قابضا بنفس العقد، و لا یحتاج فی ذلك إلی تخلیة البائع بقوله "سلمته إلیك" و نحوه…… الخ
المجلة (ص: 218):
 مادة 1131: قابل القسمة هو المال المشترك الصالح للتقسيم بحيث لا تفوت المنفعة المقصودة من ذلك المال بالقسمة.
شرح المجلة للعلامة الأتاسي (4/76):
شرح المادة 1131: وهي المنفعة التي کانت قبل القسمة، فلایقسم نحو الحمام، وإن کان ینتفع به بعد القسمة لربط الدواب ونحوه. قال في الدرر عازیاً للمجتبی: حانوت لهما یعملان فیه، طلب أحدهما القسمة، إن أمکن لکل أن یعمل فیه بعد القسمة ما کان یعمل فیه قبلها، قسم، وإلا، لا، اه، إلا إذا رضي الجمیع بقسمته، فإنها تصح. وهذا ظاهر في أن نحو الحمام والطاحون إذا کان کبیرا یمکن لکل من الشریکین الانتفاع به کما کان، بأن کان الحمام ذا خزانتین، والرحی ذا حجرین، یقسم. ولذا أفتی في الحامدیة بقسمة معصرة زیت لاثنین مناصفة وهي مشتملة علی عودین ومطحنین وبئرین للزیت قابلة للقسمة بلاضرر، مستدلا بما في خزانة الفتاوی: لایقسم الحمام والحایط والبیت الصغیر إذا کان بحال لو قسم،لایبقی لکل موضع یعمل فیه، اه (أفاده في رد المحتار).
الدر المختار، کتاب القسمة (6/ 261):
( وقسم عروض اتحد جنسها، لا الجنسان ) بعضهما في بعض؛ لوقوعهما معاوضةً لا تمييزا ، فتعتمد التراضي دون جبر القاضي (و) لا (الرقیق) وحده؛ لفحش التفاوت في الآدمي، وقالا: يقسم لو ذكروا فقط وإناثا فقط كما تقسم الإبل والغنم ورقيق المغنم ( و ) لا ( الجواهر ) لفحش تفاوتها ( والحمام ) والبئر والرحى والكتب وكل ما في قسمه ضرر ( إلا برضاهم ) لما مر ولو أراد أحدهما البيع وأبى الآخر لم يجبر على بيع نصيبه خلافا لمالك.
 وفي الجواهر: لاتقسم الكتب بين الورثة، ولكن ينتفع كل بالمهايأة، ولا تقسم بالأوراق ولو برضاهم، وكذا لو كان كتابا ذا مجلدات كثيرة، ولو تراضيا أن تقوم الكتب ويأخذ كل بعضها بالقيمة، لو كان بالتراضي جاز، وإلا لا، خانية .  
رد المحتار (6/ 261):
 قوله ( والحمام والبئر والرحى ) ينبغي تقييده بما إذا كان صغيرا لا يمكن لكل من الشريكين الانتفاع به كما كان، فلو كان كبيرا بأن كان الحمام ذا خزانتين والرحى ذات حجرين يقسم. وقد أفتى في الحامدية بقسمة معصرة زيت لاثنين مناصفة وهي مشتلمة على عودين ومطحنين وبئرين للزيت قابلة للقسمة بلا ضرر مستدلا بما في خزانة الفتاوى: لا يقسم الحمام والحائط والبيت الصغير إذا كان بحال لو قسم لا يبقى لكل موضع يعمل فيه. قوله ( وكل ما في قسمه ضرر ) فلا يقسم ثوب واحد لاشتمال القسمة على الضرر؛ إذ لا تتحقق إلا بالقطع؛ هداية. لأن فيه إتلاف جزء، عناية. ولا يقسم الطريق لو فيه ضرر، بزازية. قوله (لما مر) من قوله لئلا يعود على موضوعه بالنقض، وهو علة لعدم القسمة. 

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     12/رجب المرجب/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے