021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کے مکان کی تعمیر پر لگائی گئی رقم کا حکم
79300میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

تلخیص: مکانات کی تقسیم : قبلہ والد گرامی کی حیات میں زیر ملکیت دو مکانات تھے جن میں سے ایک قدرے پرانا اور دوسرا نسبتاً نیا۔جب کے ایک تیسرا بڑا مکان زیر تعمیر تھا۔والد صاحب نے ایک تعمیر شدہ مکان زبانی طور پر ایک بیٹے (جو ان کی زندگی میں وفات پاگئے تھے) کی بیوی اور بچوں کو دے دیا۔یہ فیصلہ سب بھائیوں کے اتفاق رائے سے ہوا۔جب کہ دوسرا تعمیر شدہ گھر دوسرے بیٹے (درمیانے والے) کو دےد یا۔

تیسرا گھر جو کہ تعمیر کے بالکل ابتدائی درجہ پر تھا تب وہ دیگر دو بھائیوں کو دے دیا کہ باقی کا کام یہ دونوں بھائی کروا لیں۔تاہم تینوں مذکورہ بالا مکانات پر والد صاحب کا ذاتی کچھ بھی خرچ نہیں ہوا بلکہ زلزلہ ۲۰۰۵ کے بعد یہ تینوں مکانات تعمیر ہوئے اور تعمیرات میں سب بھائیوں نے مشترکہ طور پر حصہ لیا ، کچھ کا سرمایہ لگا اور کچھ کی محنت جبکہ والد صاحب نے جملہ تعمیرات میں صرف نگرانی کے فرائض سر انجام دیےتھے۔

سب سے چھوٹے بھائی کا نہ سرمایہ لگا اور نہ ہی قابل ذکر محنت اور اس بھائی کو تعمیر شدہ مکانات میں سے کچھ حصہ نہیں ملا، تاہم ابھی بھی سب بھائی مل جل کر رہ رہے ہیں اور اس تقسیم پر کسی کوئی اعتراض نہیں۔

بہنیں مکانات کے معاملہ میں بھی محروم ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان مکانات کا ملک کون شمار ہوگا ، والد صاحب یا تعمیر کرنے والے بھائی؟نیز محروم شدہ بھائی کی حیثیت کیا ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

    دونوں تعمیر شدہ مکانات جو آپ کے والد صاحب نے زندگی میں تقسیم کردیے تھے، ان کے متعلق تفصیل سوال نمبر 1کے تحت موجود ہے۔

    والد کی زندگی میں بھائیوں نے تعمیرات پر جو خرچہ کیا ، وہ اگر تبرع اور احسان کے طور پر کیا تھا تو تینوں گھر والد صاحب ہی کی ملکیت شمار ہوں گے ،یعنی تینوں گھروںمیں وراثت جاری ہوگی۔البتہ اگر تعمیرات پر ہونے والے اخراجات بطور قرض کے تھے، تو والد صاحب کے ترکہ میں سے بھائیوں کو وہ رقم لینے کا حق حاصل ہے، اور اگر تعمیرات پر رقم بطور ملکیت خرچ کی ہو تو زمین والد صاحب کی ملکیت شمار ہوگی اوراس میں وراثت جاری ہوگی، جبکہ تعمیر میں بھائیوں کی ملکیت ان کی طرف سے لگائے گئے خرچے کی تناسب سے ہوگی۔

حوالہ جات
تنقيح الفتاوى الحامدية (6/ 60)
والأصل أن من بنى في دار غيره بناء وأنفق في ذلك بأمر صاحبه كان البناء لصاحب الدار وللباني أن يرجع على صاحب الدار بما أنفق ا هـ

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۱۴/رجب الخیر/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے