021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوسرے کے مال کا اقرار کرنا لیکن ادائیگی سے انکار کرنا
79296اقرار اور صلح کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

عرض یہ ہے کہ ہمارا میراث کا مسئلہ ہے جوکہ آپ صاحبان نے الحمد للہ  فتوی جاری کر دیا ہے )حوالہ نمبر17958/44  (ہم اپنے گاؤں میں مفتی صاحب کے پاس گئے تھے تو انھوں نے 36 سال گزرنے  پر ہمارے دعوے کو ناقابل سماعت قرار دیا اوراس  میں یہ لکھا کہ اگر کسی کے ذمہ کسی کا حق ہو تو اسے ادا کرنا چاہیے اس سے اخروی ذمہ فارغ ہو جائے گا اور حرام اور حلال کی بات الگ ہے۔ہم جرگہ کے طور پر مفتی صاحب کے پاس گئے تھے اب مخالف فریق اس بات پر اکڑا ہوا ہے کہ 36 سال بعد ناقابل سماعت ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر ناقابل سماعت ہے پھر آخرت میں تو آپ کو حق دینا پڑے گا اور آپ کے لیے حرام بھی ہے تو مخالف فریق کہتا ہے کہ حرام ہے تو میرے لیے حرام ہے اور میرے اباواجداد کے لیے حرام ہے اور زبان سے اقرار کرتا ہے کہ حق ختم نہیں ہوتا وہ مجھے بھی پتہ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

     واضح رہے کہ فقہاء کرام نے دھوکہ دہی  اور جعل سازی کے اندیشہ کی وجہ سے صراحت فرمائی ہےکہ اگر چھتیس(36) سال تک بغیر کسی عذر کے دعویٰ نہ کیا تو اس کے بعد دعویٰ قابل سماعت نہیں رہتا ، البتہ آپ کے معاملہ میں چونکہ مخالف فریق آپ کے حق کا اقرار کر رہا ہے  جس کی وجہ سے دھوکہ دہی کا اندیشہ نہیں رہتا لہٰذا   شرعاً  آپ کا دعویٰ قابل سماعت ہے۔

     مزید یہ کہ جانتے بوجھتے ہوئے دوسرے کا حق نہ دینا اور یہ جملہ کہنا کہ حرام ہے تو مجھ پر حرام ہے، بالکل غلط عمل ہے اور شریعت کے حکم کو معمولی سمجھنا ہے ، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

     حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جو شخص ایک بالشت زمین بھی کسی کی قبضہ کرلے تو اللہ تعالی قیامت کے روز سات زمینوں کا طوق اس کے  گلے  میں ڈالیں گے۔

حوالہ جات
صحيح مسلم (3/ 1230)
 عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من اقتطع شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين»
رد المحتار (21/ 476)
لو طالت مدة دعواه بلا عذر ثلاثا وثلاثين سنة لا تسمع كما أفتى به في الحامدية أخذا مما ذكره في البحر في كتاب الدعوى عن ابن الغرس عن المبسوط إذا ترك الدعوى ثلاثا وثلاثين ، ولم يكن مانع من الدعوى ثم ادعى لا تسمع دعواه ؛ لأن ترك الدعوى من التمكن يدل على عدم الحق ظاهرا ا هـ وفي جامع الفتوى عن فتاوى العتابي قال المتأخرون من أهل الفتوى : لا تسمع الدعوى بعد ست وثلاثين سنة إلا أن يكون المدعي غائبا أو صبيا أو مجنونا وليس لهما ولي أو المدعى عليه أميرا جائرا ا هـ. ونقل ط عن الخلاصة لا تسمع بعد ثلاثين سنة ا هـ .
ثم لا يخفى أن هذا ليس مبنيا على المنع السلطاني بل هو منع من الفقهاء فلا تسمع الدعوى بعده وإن أمر السلطان بسماعها.
رد المحتار (21/ 247 )
الثالث : عدم سماع القاضي لها إنما هو عند إنكار الخصم فلو اعترف تسمع كما علم مما قدمناه من فتوى المولى أبي السعود أفندي ؛ إذ لا تزوير مع الإقرار

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۱۴/رجب الخیر/۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے