021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لفظِ آزادسےطلاق کا حکم
79364طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میاں بیوی بعض اختلافات کی وجہ سے الگ الگ رہ رہے تھے اور آپس میں لڑائی جھگڑا چل رہا تھا۔ ایک دن شوہر نے لڑائی کے دوران یہ میسجز بیوی کو کئے: "ہم ساتھ نہیں چل سکتے۔ یوآر فری فرام مائی سائڈ۔ انجوائے یور لائف۔ اللہ حافظ۔ جب عقل آجائے بتا دینا۔۔۔نہ آئی تو بھی بتا دینا" جب بیوی نے کہا کہ یہ الفاظ طلاق کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو شوہر نے جواب میں یہ میسج کیا:۔ "طلاق کے لئے کہنا پڑتا ہے طلاق۔ فری سے مراد ہے جو مرضی کرو۔ ٹھیک ہے تم تو دیندارہو۔ تمہیں پتہ ہے نا تو جو مرضی سمجھو۔ جو مرضی سمجھو۔اللہ حافظ۔ اب واپسی کے راستے بند۔ انجوائے یور لائف۔ ان مسئلوں کے پیچھے رشتہ ختم کر دیا۔ اللہ حافظ" تھوڑی دیرکےبعد میسج کیا کہ ایسے طلاق نہیں ہوتی۔ میری نیت طلاق کی نہیں تھی۔ ہر دفعہ شوہر نے یہی کہا کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی۔ بعض دفعہ لڑائی کے دوران بیوی نے بھی شوہر کو یہ کہا کہ "مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا۔ میرا پیچھا چھوڑ دیں۔ " لیکن جس وقت شوہر نے یہ کنایہ الفاظ والے میسج کئے اس وقت ایسی کوئی بات بیوی نے نہیں کی تھی۔

اگر شوہر کہہ دے میری نیت طلاق کی نہیں تھی تو کیا اس سب کے بعد طلاق ہوئی یا نہیں؟کیا ہمیشہ شوہر کی نیت دیکھی جائے گی؟اگر شوہر کی نیت طلاق کی ہو تو اس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟

نوٹ:سائلہ سے معلوم ہوا کہ تقریباً چھہ ماہ قبل دارالافتاء سے فون پر مسئلہ معلوم کیا گیا تھا،تو جواب ملا تھا کہ اگر شوہر کی نیت طلاق کی تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں ہوگی۔اب کچھ دن پہلے یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں مفتی صاحب نے کہا کہ لفظ"آزاد"میں نیت ہو یا نہ ہو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لفظِ آزاد سے طلاق واقع ہونے،نہ ہونے کے سلسلے میں یہ تفصیل ہے ،کہ اس لفظ کے استعمال کی درج ذیل تین حالتیں ہیں:

1:کلام میں ایسا لفظی قرینہ موجود ہو جس سے یہ لفظ غیر طلاق کے لئے متعین ہوتا ہو،تو ایسی صورت میں یہ لفظ لغو ہے،یعنی اس سےکوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

2:کلام میں ایسا لفظی قرینہ ہو جس سے یہ لفظ معنی طلاق کے لئے متعین ہوتا ہو،تو ایسی صورت میں  عرف کی وجہ سےیہ لفظ صریح شمار ہوگا،لہٰذا س سے رجعی واقع ہوجاتی ہے اور اس کے بعد دوسری بائن بھی واقع ہوجاتی ہے۔

3:لفظِ آزاد کلام میں اس طرح استعمال ہو کہ کلام میں طلاق یا غیر طلاق کسی قسم کا قرینہ موجود نہ ہو،ایسی صورت میں یہ لفظ صرف کنایات میں سےہے جن سے طلاق واقع ہونے کے لئےبہر حال نیت شرط ہےاور نیت کے ہوتے ہوئے ایک بائن طلاق واقع ہوتی ہے،اور اس کے بعد دوسری بائن طلاق لاحق نہیں ہوتی۔

مذکورہ تفصیل کے بعد چونکہ سائل کے عرف میں یہ لفظ طلاق کے لئے متعین نہیں ہے اور بقولِ سائل یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے طلاق کی نیت بھی نہیں تھی اس لئے مذکورہ لفظ سےطلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔

حوالہ جات
"الفتاوى الهندية "1/ 374
" ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جوابا وردا فإنه لا يجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لا يصدق فيها كذا في الهداية".
"رد المحتار" 3/ 308
"(قوله :لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال، وحينئذ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم فالبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن".

محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

15/رجب /1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب