021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کنایہ الفاظ سے طلاق کا حکم
79365طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا کنایہ الفاظ سے ہمیشہ طلاق بائن ہوتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کنایہ سے مراد وہ الفاظ ہیں جو اصلاً طلاق کے لیے وضع نہ ہوں،بلکہ طلاق اور غیر طلاق دونوں معنوں کا احتمال رکھتے ہوں۔مثلا کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ "تو مجھ سے جدا ہے" یایہ کہے کہ "تو مجھ سے بری ہے "۔کنائی الفاظ کا حکم یہ ہے کہ ان میں سوائے تین الفاظ ) اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة (کے بقیہ تمام الفاظ سے طلاق بائن واقع ہوتی ہے بشرط یہ کہ یا تو شوہر نے طلاق کی نیت کی ہو یا دلالت حال  سے یہ معلوم ہو کہ شوہر نے یہ لفظ طلاق کی نیت سے استعمال کیا ہےاور اگر کوئی کنائی   لفظ   کسی خاص عرف  میں طلاق کیلئے  بکثرت استعمال ہو نے لگے تو اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

(1) اس کنائی لفظ میں حرمت یا مکمل علیحدگی   کا معنی ہو جیسے لفظِ حرام،اس    سے طلاق بائن واقع ہوگی کیونکہ اس لفظ کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کے بعد جماع یا دواعی جماع دونوں حلال نہ رہیں اور یہ تب ہو سکتا ہے جب   طلاق بائن واقع ہو۔

(2) اوردوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کنائی  لفظ  عُرف کی وجہ سے  صرف طلاق ہی  میں متعارف ہو لیکن اس میں مکمل علیحدگی اور  حرمت کا معنی نہ ہونیز  وہ لفظ بولتے وقت  ایسا کوئی لفظ یا جملہ بھی نہ بولا جائے جو  اس کے معنی میں شدت اور سختی پیدا کرے تو ملحق بالصریح ہونے کی وجہ سے طلاق صریح کی  طرح اس سے بھی طلاق رجعی واقع ہوگی

حوالہ جات
الاختيار لتعليل المختار (3/ 132)
وكنايات الطلاق لا يقع بها إلا بنية أو بدلالة الحال، ويقع بائنا إلا اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة فيقع بها واحدة رجعية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 296)
(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252)
أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 299)
أن لفظ حرام معناه عدم حل الوطء ودواعيه وذلك يكون بالإيلاء مع بقاء العقد وهو غير متعارف، ويكون بالطلاق الرافع للعقد، وهو قسمان: بائن ورجعي، لكن الرجعي لا يحرم الوطء فتعين البائن، وكونه التحق بالصريح للعرف لا ينافي وقوع البائن به، فإن الصريح قد يقع به البائن كتطليقة شديدة ونحوه: كما أن بعض الكنايات قد يقع به الرجعي، مثل اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة.والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن.

محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

15/رجب /1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب