021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نام رکھنے سے متعلق شرعی حکم۔ شرعی ضابطہ
79359جائز و ناجائزامور کا بیانبچوں وغیرہ کے نام رکھنے سے متعلق مسائل

سوال

اگر کوئی شخص مذکورہ ناموں میں سے کوئی نام اپنی بچی کے لیے رکھنا چاہے تو اس میں کوئی قباحت ہے،شرعی لحاظ سے رہنمائی فرمادیں ؟

۱)آیت۲ ) انزلنا۳  )مشال ۴)   زمال ۴)نمل

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نام رکھنے سے متعلق شرعی حکم یہ ہےکہ ایسا نام رکھا جائےجو انبیاء کرام علیہم السلام،صحابہ کرام  یا نیک لوگوں کے نام پر ہواور اسی طرح ایسا نام رکھا جائے جس کا معنی اچھا ہو۔

’’آیت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے: علامت اور نشانی

’’انزلنا‘‘ عربی زبان کا جملہ ہے، جس کا معنی  ہے:ہم نے اتارا

’’مَشال‘‘عربی زبان کا لفظ ہے، اگر میم کے زبر کے ساتھ پڑھیں  تو اس کا معنی اوپر اٹھاناہے۔

’’زمال‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے:کمزوری اور کنویں سے پانی نکالنے کے لیے چمڑے کا دستانہ۔

’’نَمِل‘‘ عربی کا زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے: ماہر تجربہ کار ۔

’’نَمَل‘‘عربی کا زبان کا لفظ ہے،جس کا معنی ہے:چُغل خور

            مذکورہ بالاناموں میں صرف  ’’آیت‘‘ایسا نام ہے  جو لغوی مفہوم کے لحاظ سے  بچی کا نام رکھا جا سکتا ہے،لیکن اس کا عرفی معنی چونکہ قرآن کی آیت ہے، اس لیےیہ مناسب نہیں ۔اس کے علاوہ باقی الفاظ  نام رکھنے کے اعتبار  سےکوئی خاص اور خوبصورت  معنی نہیں رکھتے ،لہٰذا یہ نام رکھنا بھی  درست نہیں۔بچی کا نام رکھتے   ہوئےبہتر یہ ہے کہ صحابیات میں سے کسی کے نام کو منتخب کرلیں، یہ زیادہ اچھاہے۔

حوالہ جات
شعب الایمان: (حقوق الأولاد والأہلین/ 6/ 401)
"عن أبي سعيد، وابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه، فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما، فإنما إثمه على أبيه."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 417)
(قوله أحب الأسماء إلخ) هذا لفظ حديث رواه مسلم وأبو داود والترمذي وغيرهم عن ابن عمر مرفوعا. قال المناوي وعبد الله: أفضل مطلقا حتى من عبد الرحمن، وأفضلها بعدهما محمد، ثم أحمد ثم إبراهيم اهـ. وقال أيضا في موضع آخر: ويلحق بهذين الاسمين أي عبد الله وعبد الرحمن ما كان مثلهما كعبد الرحيم وعبد الملك، وتفضيل التسمية بهما محمول على من أراد التسمي بالعبودية، لأنهم كانوا يسمون عبد شمس وعبد الدار، فلا ينافي أن اسم محمد وأحمد أحب إلى الله تعالى من جميع الأسماء، فإنه لم يختر لنبيه إلا ما هو أحب إليه هذا هو الصواب ولا يجوز حمله على الإطلاق اهـ. وورد " «من ولد له مولود فسماه محمدا كان هو ومولوده في الجنة» رواه ابن عساكر عن أمامة رفعه قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن اهـ.

عدنان اختر

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

۱۷؍رجب ؍۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عدنان اختر بن محمد پرویز اختر

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب