021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق معلق کے وقوع کے بعد ساس کو فون پر کئی مرتبہ کہنا کہ میں نے آپ کی بیٹی کو طلاق دے دی
80255طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

 ایک شخص نے اپنی بیوی سے رمضان سے نو دس دن قبل کہا کہ اگر تم گاؤں لاخار گئی تو مجھ پر طلاق ہو،اس کے بعد وہ شخص اس عید الفطر پر اسے گاؤں لے گیا۔

اس کے بعد یکم مئی 2023 کو اس نے اپنی ساس کو فون کرکے کہا کہ آپ کی بیٹی کو میں نے طلاق دے دی ،دوبارہ بھی یہی الفاظ دہرائے کہ آپ کی بیٹی کو میں نے طلاق دے دی ،ساس نے کہا کیوں طلاق دی ؟ تو اس نے جواب میں کہا کہ میں نے اسے چھوڑدیا،تاکہ تمہاری بیٹی کنواروں کے ساتھ رہے۔

یہ الفاظ صرف ساس نے سنے ہیں،اس کے علاوہ اس پر کوئی گواہ نہیں ہے۔

پھر اس کے بعد شوہر نے وہاں موجود کئی لوگوں کے سامنے مبارک باد دی کہ مبارک ہو،میں نے لڑکی کو چھوڑدیا ہے،اب یہ کنواروں کے ساتھ رہے اور ساس سے مزید یہ بھی کہا کہ اگر لڑکی کے پاس کوئی رشتہ آئے گا بھی تو میں اسے خراب کروں گا۔

یاد رہے کہ یہ بندہ نشہ کرتا ہے،اس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ شاید اس نے نشے کی حالت میں طلاق دی ہے،جبکہ وہ بندہ خود اب قسمیں کھا کر طلاق دینے سے انکار کررہا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی۔

اب اس تفصیل کی روشنی میں آپ حضرات سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اصل جواب سے پہلے آپ چند باتیں سمجھ لیں:

1۔ نشے کی حالت میں بھی شرعا طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

2۔وقوعِ طلاق کے لئے گواہوں کا الفاظِ طلاق کو سننا شرط نہیں،بلکہ اس کے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

3۔ طلاق کے معاملے میں عورت کی خود اپنی حیثیت قاضی جیسی ہے،لہذااگر وہ خود شوہر کے منہ سے طلاق کے الفاظ سنے یا کوئی معتمد شخص اسے خبر دے کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دی ہے تو اس کے بعد بیوی کے لئے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔

لہذا مذکورہ صورت میں ایک طلاق تو بیوی کے گاؤں جانے سے واقع ہوگئی،جبکہ اس کے بعد شوہر نے اپنی ساس کو فون پر جو جملے بولے ہیں کہ " آپ کی بیٹی کومیں نے طلاق دے دی"،ان کا حکم یہ ہے کہ :

اگر شوہر نے یہ جملے سابقہ معلق طلاق کے وقوع کے حوالے سے خبر دینے کی نیت سے بولے ہوں تو پھر ان سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،لیکن اگر اس نے اس نیت سے نہیں بولے تو پھر بظاہر یہ جملہ طلاق کی جھوٹی خبر ہے،کیونکہ سابقہ معلق طلاق کے علاوہ شوہر نے اس کی بیٹی کو کوئی اور طلاق دی نہیں اور جھوٹی خبر کے ذریعے بھی قضاءً طلاق واقع ہوجاتی ہے،لہذا اس کے ذریعے سے دوسری طلاق واقع ہوگئی ہے،البتہ اس کے بعد کہے گئے جملے اسی کی تاکید شمار ہوں گےاور ان سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

تاہم ان جملوں میں انشاءِ طلاق کا احتمال بھی بہرحال موجود ہے،اس لئے اگر شوہر نے یہ جملے مزید طلاقیں دینے کی نیت سے بولے ہوں تو پھر ان کے ذریعے مزید دو طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،اس صورت میں موجودہ حالت میں ان دونوں کا دوبارہ نکاح ممکن نہیں رہے گا۔

لیکن یہ ذہن میں رہے کہ اگر شوہر نے اس وقت یہ جملے انشاء کی نیت سے بولے ہوں اور اب حرمت سے بچنے کے لئے غلط بیانی سے کام لے گا تو اس کی وجہ سے اس کے لئے بیوی حلال نہیں ہوگی،بلکہ ساری عمر حرام کاری میں ابتلاء کا گناہ سرزد ہوتا رہے گا،اس لئے اس کے ذمے لازم ہے کہ جس نیت سے بولے ہوں وہی بتائے۔

یہ تفصیل تو اس صورت میں ہے جب شوہر ان جملوں کے بولنے کا اقرار کرے،لیکن اگر شوہر اب ان جملوں کے بولنے سے انکاری ہے،جبکہ بیوی کو اپنی ماں پر اعتماد ہے کہ وہ صحیح کہہ رہی ہے، تو ایسی صورت میں قضاءً تو مزیدطلاقیں واقع نہیں ہوں گی،لیکن دیانت کے لحاظ سے ان جملوں کے ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے دو طلاقیں واقع سمجھی جائیں گی،کیونکہ شوہر کی جانب اپنی ساس کو فون پر بولا گیا جملہ میں نے آپ کی بیٹی کو طلاق دے دی بظاہر طلاق کی جھوٹی خبر ہے اور اس کے بعد بولے گئے جملے اسی جملے کی تاکید ہیں،کیونکہ معلق طلاق کا وقوع شرط کے پائے جانے سے ہوتا ہے،جس کی وجہ سے  عام طور پر لوگ اس کی نسبت اپنی طرف نہیں کرتے،لہذا عدت کے دوران               شوہر کو قولی یا عملی طور پر رجوع کا حق حاصل ہوگا،لیکن اس کے بعد شوہر کے پاس صرف ایک طلاق اختیار باقی رہ جائے گا،جس کے بعد حرمت مغلظہ ثابت ہوجائے گی۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 235):
"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح لا إقراره بالطلاق".
"الدر المختار " (3/ 355):
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا".
"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ": (ج 3 / ص 285) :
"( فإن وجد الشرط فيه ) أي في الملك بأن كان النكاح قائما أو كان في العدة (انحلت اليمين ووقع الطلاق ".
"رد المحتار" (3/ 236):
"ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة. اهـ. ".
"الفتاوى الهندية" (1/ 355):
"ولو قال لامرأته أنت طالق فقال له رجل :ما قلت ؟فقال: طلقتها أو قال قلت: هي طالق فهي واحدة في القضاء كذا في البدائع".
"فتاوى قاضيخان" (1/ 225):
"رجل طلق امرأته ثم قال لها في العدة قد طلقتك أو قال بالفارسية تراطلاق دادم يقع تطليقة أخرى ولو قال كنت طلقتك أو قال بالفارسية طلاق داده أم ترا لا يقع أخرى ".
"فتح القدير" (8/ 17):
" وكل ما لا يدينه القاضي إذا سمعته منه المرأة أو شهد به عندها عدل لا يسعها أن تدينه لأنها كالقاضي لا تعرف منه إلا الظاهر".
"رد المحتار"(3/ 251):
"والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه".

محمد طارق غرفی

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

08/ذی قعدہ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے