021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ExpertOption کی شرعی حیثیت
80245خرید و فروخت کے احکامبیع صرف سونے چاندی اور کرنسی نوٹوں کی خریدوفروخت کا بیان

سوال

Expertopionکی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ExpertOption ایک ڈیجیٹل فائنانشل مارکیٹ ہے جس میں مختلف دھاتیں مثلاً سونا، چاندی، کاپر اور مختلف کرنسی یعنی ڈالر، بٹ کوائن اور دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں کی ٹریڈ کی جاتی ہے۔ ExpertOption دراصل فاریکس کی طرح ممکنہ طور پر منافع کمانے کے لیے کرنسی کی قیمتوں پر قیاس آرائیوں کا عمل ہے۔ ExpertOption میں آن لائن ٹریڈنگ کا اصولی حکم یہ ہے کہ کرنسی کی خرید و فروخت کے لیے تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔اس کی لین دین حقیقی ہو، فقط اکاؤنٹ میں ظاہر نہ کی جاتی ہو۔

2۔اسے بیچنے والا اس کا حقیقتاً مالک بھی ہو اور بیچنے والے نے اس پر قبضہ بھی کیا ہو۔

3۔مختلف ممالک کی کرنسیوں کالین دین ہو تو عقد کی مجلس میں ہی کسی ایک کرنسی پر حقیقتاً یا حکماً  قبضہ کر لیا جائے۔

ان شرائط کی روشنی میں صورتِ مسئولہ کا حک یہ ہے کہ مذکورہ طریقہ میں ہمارے علم کی حد تک کئی قباحتیں پائی جاتی ہیں، مثلاً اس طریق میں:

  1. حقیقی خرید و فروخت نہ ہونے کی بنا پر اکثر صورتوں میں ’’بیع الدین بالدین‘‘ (ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ) ہوتی ہے جوکہ ناجائز ہے۔
  2. نیز ExpertOtion کی ٹریڈنگ میں اسکرین پر محض اعداد و شمار کے بڑھنے اور گھٹنے کو نفع اور نقصان شمار کیا جاتا ہے، حسی طور پر کسی چیز پر قبضہ نہیں ہوتا، اس لحاظ سے اس میں قمار کی قباحت بھی پائی جاتی ہے، جوکہ شرعاً ناجائز ہے۔
  3. مزید اس طریقہ کاروبار میں ایک قباحت ''بیع قبل القبض'' کی بھی ہے، کیونکہ قریباً تمام لوگ  خریداری محض کر نسی ریٹ کے اتار چڑھاؤ کے ذریعے نفع حاصل کر نے کے لیے کرتے ہیں ، ان کا مقصد اس پر حسی یا حقیقی قبضہ نہیں ہوتا۔ یوں سب لوگ بغیر قبضہ کیے اس کو آگے فروخت کر دیتے ہیں جو کہ جائز نہیں ہے۔

الغرض Expert option میں ٹریڈنگ کے ذریعہ کاروبار قمار (سٹہ) ، بیع المعدوم(غیر موجود شئی کی بیع) ، بیع قبل القبض (قبضہ سے پہلےمبیع آگے فروخت کرنا) اور بیع الکالی بالکالی(قرض کا قرض کے بدلے بیع)پر مشتمل ہونے کی وجہ سے حرام ہے  اور اس میں سرمایہ  کاری شرعا جائز نہیں اس لئے مسلمانوں پر اس سے احتراز لازم ہے۔

حوالہ جات
قال الله تعالى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔(المائده:90)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 505)
 وشرط المعقود عليه ستة: كونه موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وكون الملك للبائع فيما يبيعه لنفسه، وكونه مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 561)
ثم التسليم يكون بالتخلية على وجه يتمكن من القبض بلا مانع ولا حائل. وشرط في الأجناس شرطا ثالثا وهو أن يقول: خليت بينك وبين المبيع فلو لم يقله أو كان بعيدا لم يصر قابضا والناس عنه غافلون، فإنهم يشترون قرية ويقرون بالتسليم والقبض، وهو لا يصح به القبض على الصحيح وكذا الهبة والصدقة
المبسوط للسرخسي (14/ 4)
ولأن هذا العقد مبادلة الثمن بالثمن والثمن يثبت بالعقد دينا في الذمة والدين بالدين حرام في الشرع لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الكالئ بالكالئ فما يحصل به التعيين وهو القبض لا بد منه في هذا العقد
"قوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل} [النساء: 29] بالحرام، يعني: بالربا والقمار والغصب والسرق"
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 403):
"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص"

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

09/ذوالقعدہ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے