021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سیکورٹی ادارے سےرہائش کے لیے عارضی طور پر لی ہوئی زمین پر مسجد بنانے کا حکم
80286وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

بسم اللہ الرحمن الرحیم کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلے کے بار ے میں: گورنمنٹ کے ایک سیکورٹی ادارے نے 1955 میں زمین دوسرے سیکورٹی ادارے کو عارضی طور پر اپنے ملازمین کی رہائش کے لیے دی، جو کہ 2020 میں واپس لے لی گئی۔ گورنمنٹ کی یہ زمین صرف رہائشی مقصد کے لیے مختص تھی۔ اس دوسرے سیکورٹی ادارے نے وہاں رہائشی کوارٹرز بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے ملازمین کی ضرورت کے پیش نظر پہلے سیکورٹی ادارے کی اجازت کے بغیر ایک مسجد بھی تعمیر کر دی۔ جس جگہ مسجد کی تعمیر کی گئی اس جگہ کو دراصل پہلے سیکورٹی ادارے کے نقشے میں ملازمین کی رہائش کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ مندرجہ بالا سیاق و سباق کے پیش نظر مندرجہ ذیل سوالات کے شرعی جوابات مطلوب ہیں: 1۔ پہلے سیکورٹی ادارے کی قانونی اجازت کے بغیر بنائی گئی مسجد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ 2۔ اگر مذکورہ بالا مسجد کو شرعی مسجد کی حیثیت حاصل ہے توایسی مسجد کو پہلا سیکورٹی ادارہ اپنے پلان کے مطابق رہائشی کوارٹرز بنانے کے لیے شہید کر کے اس سے بہتر اور وسیع جگہ پر منتقل کر سکتا ہے؟ ازراہ کرم مندرجہ بالا سوالات کے جوابات دے کر عند اللہ ماجورہوں!

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۔ سرکاری زمین پر سرکار کی اجازت کے بغیر یا کسی کی زمین پر اس کے مالک کی اجازت کے بغیر مسجد تعمیرکرنا شرعی، قانونی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔لہٰذا صورتِ مسئولہ میں دوسرے سیکورٹی ادارے نے رہائش کے لیے عارضی طور پر لی گئی زمین پر پہلے ادارے کی اجازت کے بغیر جو مسجد تعمیر  ہے وہ مسجدِ شرعی کے حکم میں نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت مصلیٰ کی ہے۔

2۔ زمین چونکہ پہلے سیکورٹی ادارے کی ملکیت ہے اور مسجد  بھی چونکہ غیر شرعی ہے لہٰذا پہلے ادارے کو اس زمین میں تصرف کرنے اور وہاں سے مسجد ہٹانے کا اختیار باقی رہے گا۔

حوالہ جات
الدر المختار للحصفكي (4/ 552):
"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والامام (الصلاة فيه) بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية. فرع: أراد أهل المحلة نقض المسجد وبناءه أحكم من الاول أن الباني من أهل المحلة لهم ذلك وإلا لا، بزازية. (وإذا جعل تحته سردابا لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها أو) جعل (فوقه بيتا وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجدا (وله بيعه يورث عنه) خلافا لهما (كما لو جعل وسط داره مسجدا وأذن للصلاة فيه) حيث لا يكون مسجدا إلا إذا شرط الطريق، زيلعي."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 356):
"والمصلى) شمل مصلى الجنازة ومصلى العيد قال بعضهم: يكون مسجدا حتى إذا مات لا يورث عنه وقال بعضهم: هذا في مصلى الجنازة، أما مصلى العيد لا يكون مسجدا مطلقا، وإنما يعطى له حكم المسجد في صحة الاقتداء بالإمام، وإن كان منفصلا عن الصفوف وفيما سوى ذلك فليس له حكم المسجد، وقال بعضهم: يكون مسجدا حال أداء الصلاة لا غير وهو والجبانة سواء، ويجنب هذا المكان عما يجنب عنه المساجد احتياطا. اهـ. خانية وإسعاف والظاهر ترجيح الأول؛ لأنه في الخانية يقدم الأشهر (قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف اهـ. مطلب في أحكام المسجد قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا اهـ ويصح أن يراد بالفعل الإفراز، ويكون بيانا للشرط المتفق عليه عند الكل كما قدمناه من أن المسجد لو كان مشاعا لا يصح إجماعا وعليه فقوله عند الثاني مرتبط بقول المتن بقوله: جعلته مسجدا وليست الواو فيه بمعنى أو فافهم، لكن عنده لا بد من إفرازه بطريقة ففي النهر عن القنية جعل وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول والصلاة فيه إن شرط معه الطريق صار مسجدا في قولهم جميعا وإلا فلا عند أبي حنيفة، وقالا يصير مسجدا ويصير الطريق من حقه من غير شرط كما لو آجر أرضه ولم يشترط الطريق اهـ وفي القهستاني ولا بد من إفرازه أي تمييزه عن ملكه من جميع الوجوه فلو كان العلو مسجدا والسفل حوانيت أو بالعكس لا يزول ملكه لتعلق حق العبد به كما في الكافي"
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي (12/ 190):
"قوله: (ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه) لانه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به. والسرداب بيت يتخذ تحت الارض لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في فتح القدير. وفي المصباح: السرداب المكان الضيق يدخل فيه والجمع سراديب اه. وحاصله إن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى : وأن المساجد لله "

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

11/ذوالقعدہ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے