021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دادی کا اپنے بیٹے (میرے والد) کو زمین ہبہ کرنے کا حکم
80331ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

السلام علیکم میرا جو گھر ہے اس کی زمین صرف میری دادی جان کے نام پر تھی اس کے علاوہ مکان کی تعمیر و ترقی پر جو بھی سرمایہ آیا وہ ہم نے خود کیا ہے ہم 25 سال سے ہم اس مکان پر رہ رہے ہیں دادی جان میری میرے والد صاحب جو کہ سب سے چھوٹے بیٹے تھے ان کے ساتھ رہتی تھی تھی میرے والد صاحب کی کوئی سرکاری ملازمت نہیں تھی اور کاروباری طور پر بھی وہ سیٹ نہیں تھے وہ کافی غریب تھے دوسرے بھائیوں کی نسبت ۔دوسرے بھائی مالی لحاظ سے بہتر تھے میری دادی جان کا یہ فیصلہ تھا کہا یہ گھر میں اپنے بیٹے کو ہبہ کرتی ہوں یہ میری چھوٹے بیٹے کا ہے میری زندگی میں بھی فوت ہو جانے کے بعد بی ۔ صرف وجہ یہ تھی میرے والد صاحب کے حالات اچھے نہیں تھے دوسرا خدمت گار بی تھے دادی جان کا یہ فیصلہ کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے نہیں تھا ۔ دادی جان نے ایک سٹام پیپر پر بھی لکھ کے دے دیا تھا آج تک ہم اسی گھر میں رہ رہے ہیں تمام تایا جان بھی فوت ہو چکے ہیں اس کے علاوہ تمام خاندان والے بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ پلاٹ دادی جان نے ہمیں ہبہ کیا تھا جس وقت یہ سب کچھ ہوا ہوا اس وقت رجسٹری ہمارے پاس موجود نہیں تھی اگر رجسٹری ہمارے پاس ہوتی تو وہ والد صاحب کے نام کروا دیتی ہم نے بینک سے لون لیا تھا ہماری رجسٹری بینک میں چلی گئی ابھی اسی دوران دادی جان کی وفات ہوگئی اب پندرہ سال کے بعد اب ہم نے جب بینک کا لون وہ بھی خود ادا کیا تو رجسٹری ہمارے پاس آگئی رجسٹری اس ٹائم دادی جان کے نام پر تھی وہ رجسٹری بذریعہ انتقال ہم نے اپنے نام پر کروا دی ۔۔جس ٹائم رجسٹری ہمارے پاس آئی بذریعہ انتقال اپنے نام کروائی اس ٹائم میرے والد صاحب اور ان کے بھائی بھائیوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں تھا جیسا کہ آپ کو بتایا کہ صرف زمین دادی جان کے نام پر تھی اور شروع سے ہی اس کی تعمیر و ترقی پر ہم نے پیسے خرچ کیے اور قبضہ بھی ہمارا ہے مجھے یہ بتائیں کے یہ ہبہ یا گفٹ شریعت کے مطابق پورا ہو چکا ہے علماء کے مطابق ایسا کرنا جائز نہیں تھا پر دادی جان نے اگر کردیا ہے اور قبضہ بھی آپ کو دیا ہے تو یہ حبا مکمل ہوچکا ہے بعض علماء کے مطابق شرعی عذر اگر ہو تو ایسا کر سکتے ہیں دلائل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں ۔ ۔چند مفتیان کرام کی رائے جن اہم وجوہات اور نقاط کی وجہ سے وہ میرے حق میں بہتر ہے مفتیان کرام کے مطابق - یہ زمین دادی جان کو وراثت میں نہیں ملی بلکہ یہ ان کی اپنی زمین تھی جو انہوں نے خود خریدی تھی یہ زمین انہوں نے اپنے والدین کی وراثت میں سے جو زمین ملی تھی وہ بیچ کر لی تھی - کچھ کے مطابق دادا جان زندہ نہیں تھے تو ہبہ کر سکتی ہیں - کچھ کے مطابق زمین صرف دادی جان کے نام پر تھی باقی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالا قبضہ بھی آپ کا ہے اور آخر میں بینک کا لون بھی آپ نے خود ادا کیا اور رجسٹری لی یہ زمین آپ کی ہے 5 کچھ کے مطابق والدہ دے سکتے ہیں والد نہیں دے سکتے والد کے زمین کے وارث ہوتے ہیں 6 کچھ کے مطابق دادی جان کی نیت کسی کو نقصان دینا نہیں تھی اور حقیقت میں بھی ان کی نیت یہی تھی اور شہری اظہر تھا میرے والد صاحب غریب تھا اور بہت زیادہ خدمت گزار بی 8 کچھ کے مطابق دادی جان نے اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دیا جس پر دو گواہ بھی موجود تھے اور پوری فیملی کو بھی اس حوالے سے پتا ہے 9 کچھ کے مطابق مرض الموت میں یہ سب سب کچھ نہیں کیا گیا اس سے پہلے کیا گیا اب میں اس مکان کو سیل کرنا چاہ رہا ہوں کس میری رہنمائی فرمائیں احادیث میں عمریں اور رقبئ کا بھی ذکر ہے اور اس عمری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز قرار دیا ہے ۔اس کے علاوہ بیٹوں میں انصاف کا بھی ضرور حکم دیا گیا ہے اور مفتیان کرام سے میں نے رہنمائی لی ہے سب نے مجھے اوپر جو بیان کیا ہے سب کے مطابق یہ ہبہ اور گفٹ مکمل ہے دو دارالافتاء سے فتوے بھی میں نے حاصل کر لیے ہیں جن کے مطابق یہ حبا اور گفٹ مکمل ہے عمری کے متعلق بہت اہم حدیث جس سے ہبہ کے متعلق تمام خدشات دور ہو جاتے ہیں صحیح مسلم 4198 ۔ایک عورت نے ایک باغ اپنے بیٹے کو بطور عمری دیا وہ عورت بھی فوت ہو گئی اور وہ بیٹا بھی جس کو عمر بھر کے لئے باغ دیا تھا بعد میں عورت کے بیٹوں نے بھائی کے بچوں سے باغ میں اپنا حصہ مانگا فیصلے کا اختیار حضرت جابر رضی اللہ کو آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کے مطابق آپ نے گواہی دی اور فیصلہ عورت کے اس بیٹے کے حق میں کیا جسے عمر بھر کے لئے باغ دیا گیا تھا وہ باغ آج تک عمری کرنے والے کے بیٹوں کے پاس ہے رہنمائی فرما دیں ۔ یہ گفٹ اور حبا کیا اسلام اور شریعت کے مطابق مکمل ہے دلائل سے رہنمائی فرمائیں ۔پلاٹ کیا ہمارا ہے ہم اپنی آخرت تو خراب نہیں کر رہے کیا ۔مزید رہنمائی کے لیے رابطہ بھی کر سکتے ہیں. پرابلم کی وجہ سے آپ کو تکلیف دینے پڑیں ۔میرا موبائل کا ڈیٹا لوث ہو گیا یہ میرا تمام تر سوال ہے اسی کے مطابق آپ جواب اور فتوی جاری فرمائیں ۔ Contact whatapp 03101009786 Contact email. rajatouseef713@gmail.com

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اپنی جائیدادمیں سے اولاد کو کچھ دینا ہبہ کے حکم میں ہے اور عام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری مستحب ہے ،یعنی سب کو ،چاہے لڑکا ہو یا لڑکی برابر حصہ دیا جائے، بغیر کسی معقول وجہ ترجیح کے، محض نقصان پہنچانے کی غرض سے بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا درست  نہیں،البتہ اگرکمی بیشی کی کوئی معقول وجہ ہو،جیسےاولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیالدار ہونا،بعض کا خدمت گار ہونا وغیرہ، توایسی صورت میں جو زیادہ تنگدست،عیالدار یا خدمت گار ہو اسے زیادہ دیا جاسکتا ہے،لیکن کسی کو بالکل محروم کردینا جائز نہیں۔

نیز ہبہ کے تام ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز جسے ہبہ کی جائے اس کے قبضے میں بھی دے دی جائے۔

صورتِ مسئولہ میں آپ کے بیان کے مطابق آپ کی دادی نے آپ کے والد کو جو زمین ہبہ کی اور تمام رشتہ داروں کو اس کا علم بھی تھا اور ہبہ کرنے کے بعد آپ کے والد کو قبضہ بھی دیا، لہٰذا وہ ہبہ تام اور صحیح تھا اور وہ زمین بھی آپ کے والد کی ملکیت میں آگئی تھی۔

حوالہ جات
مشكاة المصابيح (2/ 183)
 وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني نحلت ابني هذا غلاما فقال : " أكل ولدك نحلت مثله ؟ " قال : لا قال : " فأرجعه " . وفي رواية : أنه قال : " أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء ؟ " قال : بلى قال : " فلا إذن " . وفي رواية : أنه قال : أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال : " أعطيت سائر ولدك مثل هذا ؟ " قال : لا قال : " فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم "
 
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 288):
"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه لأن فيه إعانة على المعصية ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته"
 
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696):
"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم"
الدر المختار(5/688):
"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح".
صحيح البخاري ـ م م (3/ 165):
" حدثنا أبو نعيم حدثنا شيبان عن يحيى عن أبي سلمة عن جابر رضي الله عنه قال قضى النبي صلى الله عليه وسلم بالعمرى أنها لمن وهبت له(2625)"

احمد الر حمٰن

دار الافتاء، جامعۃ الرشید کراچی

14/ذوالقعدہ/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احمد الرحمن بن محمد مستمر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے