021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین طلاقوں کے بعد میاں بیوی کا بچوں کے ساتھ اکٹھے رہنا
80317طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

ایک عورت کو تین طلاقیں ہوگئیں،اس کی اولاد بھی بڑی عمر کی ہے،پانچ بچےہیں،ایک لڑکی کی شادی ہوچکی ہے،ایک لڑکے کی عمر پچیس سال،ایک کی 23 سال،ایک کی 21 سال اور ایک کی 19 سال،جبکہ گھر ایک ہی ہے،البتہ گراؤنڈ فلور پر دو کمرے ہیں،جس کی صورت یہ ہے کہ دوسرے کمرے میں جانے کے لئے پہلے کمرے سے گزرنا پڑتا ہے اور اوپر والی منزل میں ایک کمرہ ہے،گرمیوں میں سارے گھر والے اوپر سوتے ہیں۔

اولاد نہ اپنی ماں کو چھوڑنا چاہتی ہے اور نہ باپ کو،جبکہ ان کی ماں ان کے باپ کے لئے طلاق کی وجہ سے نامحرم بن چکی ہے،اب سوال یہ ہے کہ اس گھر میں باپ کا رہنا جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں والد اور والدہ دونوں کے لئے بچوں کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے،بشرطیکہ پردے کا اہتمام کریں اور رہائش علیحدہ علیحدہ کمروں میں رکھیں،تاکہ ازداواجی عمل میں ابتلاء کا اندیشہ نہ رہے۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (3/ 538):
"وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف".
قال ابن عابدین رحمہ ﷲ:" (قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك والظاهر أن التقييد بكون سنهما ستين سنة وبوجود الأولاد مبني على كونه كان كذلك في حادثة السؤال كما أفاده ط".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

15/ذی قعدہ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے