021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہاؤس بلڈنگ لون کا حکم
80402سود اور جوے کے مسائلمختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان

سوال

Our Company Give us HBL (House Building Loan) Which is based on our Basic pay for Example a man have Rs.10,OOO/-Basic pay he will be avail 100 Basic Pays a sum of Rs. 1000,000/- 10 Lakh The employee will returned this amount in 100 equal Installments in 9 years He will pay 4% service charges annualy with installments It is according to the shariyah or not today 2023 Company paid us 10 Lakh and we will return this amount in 9 years question is this after 9 years the value of this amount will be decreased if this loan is according to the shariyay then well and good otherwise please guide us the alternate s

خلاصہ سوال:ایک کمپنی اپنے ملازمین کو گھر بنانے کےلیے بطورقرض رقم فراہم کرتی ہے۔طریقہ کا ر یہ ہے کہ اگر دس ہزار تنخواہ ہے تو دس لاکھ قرض ملے گا جو کہ سو قسطوں میں واپس کرنا ہوگا۔ البتہ کمپنی اس رقم پر چار فیصد سروس چارجز کے نام پر اضافی وصول کرے گی۔ کیا یہ شرعا جائز ہے ؟ اگر جائز نہیں تو متبادل کیا ہوگا؟hariyay solution of this Loan Jazak Allah

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ قرض دے کر اس پر کسی بھی قسم کا اضافی نفع حاصل کرنا  سود کہلاتا ہے جوکہ شرعا حرام ہے ۔ سود  کھانے والوں کے لیے قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔ سوال میں ذکرکردہ صورت  کے مطابق کمپنی کا دس لاکھ روپے   دے کر سروس چارجز کے نام پر اضافی 4 فیصد لینا  قرض پر نفع لینا ہے جو  کہ سود   اور حرام ہے۔لہذا ایسے   سودی معاملے سے اجتناب  لازم ہے۔

مذکورہ معاملہ کا شرعی متبادل یہ ہوسکتا ہے کہ کمپنی  ملازم کے ساتھ ایڈوانس تنخواہ کا معاہدہ کرلے اور یہ رقم  ایک سو چار ماہ کی پیشگی  تنخواہ کے طور پر ملازم کو  ادا کردے۔

حوالہ جات
[آل عمران: 130]
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون}
الدر المختار  (5/ 166)
وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166)
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ سائحاني.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 10)
(و) اعلم أن (الأجر لا يلزم بالعقد فلا يجب تسليمه) به (بل بتعجيله أو شرطه في الإجارة) المنجزة، أما المضافة فلا تملك فيها الأجرة بشرط التعجيل إجماعا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 74)
(استأجر عبدا شهرين شهرا بأربعة وشهرا بخمسة صح) على الترتيب المذكور، حتى لو عمل في الأول فقط فله أربعة وبعكسه خمسة

عبدالقیوم   

         دارالافتاء جامعۃ الرشید

20/ذوالقعدہ/1444            

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے