021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
EFU Life نامی انشورنس کمپنی میں کام کرنا کیسا ہے
80514سود اور جوے کے مسائلانشورنس کے احکام

سوال

اسلام علیکم! EFU Life نامی انشورنس کمپنی میں کام کرنا اور انشورنس کرانا کیسا ہے۔اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کے تمام اصول و ضوابط اسلامی اصولوں کے مطابق ہیں۔اور اسکا لنک صرف اسلامی بینکوں سے ہے۔براہ کرم اگر آپ کے پاس اس کمپنی سے متعلق کوئی فتوی پہلے سے موجود ہے تو وہ مجھ سے شیئر کر دیں۔یا مجھے اس کمپنی کے متعلق جانچ پڑتال کرکے اتنا بتا دیں کہ اس کمپنی میں کام کرنا اور انشورنس کرانا حلال ہے یا حرام۔میں آپ کا بہت مشکور رہوں گا ۔اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔جتنا جلدی ممکن ہو سکے مجھے جواب دے دیجئے گا ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

EFU lifeانشورنس کمپنی ہے جو روایتی طریقے سے مختلف قسم کی انشورنس پالیسیاں جاری کرتی ہیں۔یہ پالیسیاں چونکہ سود پر مشتمل ہوتی ہیں ،لہذا ایسی کوئی بھی پالیسی لینا اور انشورنس کروانا سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔انشورنس کمپنی میں کام کرنے کے حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ کام یا ملازمت براہ راست سودی معاملہ سے تعلق رکھتا ہو تو ناجائز ہے ۔اگر براہ راست سودی معاملے سے متعلق نہ ہو تو جائز توہے لیکن ایسی ملازمت سے بھی احتیاط کرنا بہتر ہے۔

البتہEFU نے "حمایۃ" کے نام سے تکافل ونڈو کھولی ہوئی ہے ۔تکافل کے حوالے سے ہمارے دارالافتاء سے ابھی تک جواز کا فتوی جاری نہیں ہوا ہے ۔ EFU سمیت جو کمپنیاں تکافل کررہی ہیں وہ دارالعلوم کراچی کے فتوی کی بنیاد پر کام کرتی ہیں، لہذا مزید تفصیلات کے لیے ان سے رجوع کیاجاسکتا ہے۔

حوالہ جات
صحيح مسلم للنيسابوري (5/ 50)
عن عبد الله قال لعن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- آكل الربا ومؤكله. قال قلت وكاتبه وشاهديه قال إنما نحدث بما سمعنا.
فقہ البیوع(2/1065)
أما إذا كانت الوظيفة ليس لها علاقة مباشرة بالعمليات الربوية، مثل وظيفة الحارس أو سائق السيارة، أو العامل على الهاتف أو الموظف المسئول عن صيانة البناء، أو المعدات أو الكهرباء، أو الموظف الذى يتمحض عمله في الخدمات المصرفية المباحة، مثل تحويل المبالغ، والصرف العاجل للعملات، وإصدار الشيك المصرفي،أو حفظ مستندات الشحن أو تحويلها من بلد إلى بلد، فلا يحرم قبولها إن لم يكن بنية الإعانة على العمليات المحرمة، وإن كان الاجتناب عنها أولى، ولا يُحكم في راتبه بالحرمة، لما ذكرنا من التفصيل فى الإعانة والتسبب، وفى كون مال البنك مختلطاً بالحلال والحرام. ويجوز التعامل مع مثل هؤلاء الموظفين هبة أو بيعاً أو شراء.
فقه البيوع(1068/2)
وأما قبول الوظيفة فيها،فحكمه  و حكم التعامل مع الموظفين  فيها مثل حكم الوظائف في البنوك الربوية

عبدالقیوم   

دارالافتاء جامعۃ الرشید

27/ذوالقعدہ/1444            

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے