80490 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ واپس کرنے کابیان |
سوال
کیا ہدیہ کی ہوئی چیز واپس مانگی جا سکتی ہے جبکہ اس کی مالیت بڑھ چکی ہو
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ہدیہ دے کر واپس مانگنا مکروہ تحریمی ہے۔حدیث مبارکہ میں ہدیہ واپس لینے کو کتے کے اپنی قے چاٹنے سے تشبیہ دی گئی ہے اور اسے سخت ناپسند فرمایا ہے۔
البتہ اگر ہدیہ کردہ چیزمیں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا اور وہ اپنی حالت پر باقی ہو تو جس کو ہدیہ دیا گیا ہے اس کی رضامندی سے ہدیہ واپس لیا جا سکتا ہے ،جبراً نہیں لیا جاسکتا۔
حوالہ جات
الجامع الصحيح سنن الترمذي (4/ 235)
عن بن عمر وابن عباس يرفعان الحديث قال لا يحل للرجل أن يعطي عطية ثم يرجع فيها إلا الوالد فيما يعطي ولده ومثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب أكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد في قيئه قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 698)
(صح الرجوع فيها بعد القبض) أما قبله فلم تتم الهبة (مع انتفاع مانعه) الآتي (وإن كره) الرجوع (تحريما) وقيل: تنزيها نهاية (ولو مع إسقاط حقه من الرجوع) فلا يسقط بإسقاطه خانية.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 166)
(المادة 864) للوهب أن يرجع عن الهبة والهدية بعد القبض برضى الموهوب له وإن لم يرض الموهوب له راجع الواهب الحاكم، وللحاكم فسخ الهبة إن لم يكن ثمة مانع من موانع الرجوع التي ستذكر في المواد الآتية
الفتاوى الهندية (34/ 452)
في الفتاوى الغياثية الرجوع في الهبة مكروه في الأحوال كلها ويصح ، كذا في التتارخانية .
عبدالقیوم
دارالافتاء جامعۃ الرشید
27/ذوالقعدہ/1444
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |