021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت اور شرکت میں خسارے کی تقسیم کا حکم
80575شرکت کے مسائلمشترک چیزوں کے اخراجات کے مسائل

سوال

  پٹرول پمپ کی کمپنی نے کسی وجہ سے ہماری رقم جو کہ تیل کے سلسلے میں کمپنی کو بھیجی ہے، جو کہ 136000 روپے ہے، اس میں سے 110000 روپے ضبط کر لیے جس پر ہم انکاری ہیں۔ اگر کمپنی وہ  ر قم ہمیں واپس نہیں کرتی تو تینوں فریقین کے لیے جرمانہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟ اور خدا نہ کرے کہ پمپ پر تیل کے ساتھ کوئی حادثہ ہو تو اس صورت میں تینوں فریقین کے لیے کیا اصول ہے؟

وضاحت: سائل کی زبانی وضاحت سے معلوم ہوا کہ انہوں نے تیل وغیرہ خریدنے کے لیے کسی تیسرے سرمایہ کار(تیسرا فریق)  سے پچاس لاکھ کا سرمایہ لیا ہے ، جس پر اس کو نفع کا نصف دیا جاتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خسارے کی تقسیم میں تفصیل یہ ہے:

  1. اگر سرمایہ کار کا مال ( اس کے نقدی ، تیل وغیرہ جو اس کے پیسوں سے خریدا جاتا ہے) عمیل( اعجاز) کے تعدی اور تقصیر ( جان بوجھ کر قصور اور کوتاہی ) کے بغیر ہلاک ہو جائے یا اس میں کوئی خسارہ ہوجائے  تو اس خسارے کو پہلے سرمایہ کاری کے نفع سے پورا کیا جائیگا اور اگر نفع سے پورا نہ ہوا تو اس کو سرمایہ کاری کے رقم سے پورا کیا جائیگا اور صرف سرمایہ کار( تیسرا فریق)   اس نقصان کو برداشت کریگا۔
  2. اگر فریق اول اور دوم کے شرکت کے مال میں کوئی خسارہ ہوجائے(پمپ جل جائے وغیرہ) تو وہ شرکت کے دونوں فریق سرمایہ کے تناسب سے، یعنی نصف نصف، برداشت کریں گے۔
حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 259)
المادة (1350) الشريكان أمينا بعضهما لبعض ومال الشركة في يد كل واحد منهما في حكم الوديعة , فإذا تلف مال الشركة في يد أحدهما بلا تعد ولا تقصير فلا يضمن حصة شريكه.
المادة (1413) المضارب أمين ورأس المال في يده في حكم الوديعة , ومن جهة تصرفه في رأس المال وكيل لرب المال , وإذا ربح يكون شريكا فيه.
المادة (1427) إذا تلف مقدار من مال المضاربة فيحسب في بادئ الأمر من الربح ولا يسري إلى رأس المال , وإذا تجاوز مقدار الربح وسرى إلى رأس المال فلا يضمنه المضارب سواء كانت المضاربة صحيحة أو فاسدة.
(المادة 1428) يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما فلا يعتبر ذلك الشرط.
حاشية ابن عابدين (4/ 313)
  ( والربح على ما شرطا ) أي من كونه بقدر رأس المال أو لا لكنه محمول على ما علمته من التفصيل المار وأعاده مع قوله مع التفاصيل في المال دون الربح للتصريح بأن هذا الشرط صحيح فافهم نعم ذكره بين المتعاطفات غير مناسب وقيد بالربح لأن الوضيعة على قدر المال وإن شرطا غير ذلك كما في الملتقى وغيره
الفتاوى الهندية (2/ 320)
في النهر الفائق اشتركا فجاء أحدهما بألف والآخر بألفين على أن الربح والوضيعة نصفان فالعقد جائز والشرط في حق الوضيعة باطل فإن عملا وربحا فالربح على ما شرطا وإن خسرا فالخسران على قدر رأس مالهما كذا في محيط السرخسي

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

01/ذی الحجہ/ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب