021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت اور شرکت میں نفع کی تقسیم کا حکم
80576شرکت کے مسائلمشترک چیزوں کے اخراجات کے مسائل

سوال

 پمپ مندرجہ بالا پر دونوں فریقین کی مرضی سے سپلائی کا کام تیسرے فریق کی سرمایہ کاری سے محمد اعجاز چلا رہا ہے۔ باہمی رضامندی سے سپلائی کی آمدن کا 10 فیصد پٹرول پمپ کو دینے کا فیصلہ ہوا ہے ، باقی فریق اول محمد اعجاز اور تیسرے فریق میں برابر تقسیم ہو رہا ہے۔ اس کا شرعا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟ فریق دوئم عبد الرؤف کا خیال ہے کہ جو نصف حصے کا منافع محمد اعجاز کو مل رہا ہے وہ فریق اول اور دوئم میں 60 اور 40 فیصد کے حساب سے تقسیم کیا جائے، جبکہ فریق اول محمد اعجاز کا خیال ہے کہ پمپ کو 15 فیصد منافع دیا جائے اور باقی منافع فریق اول اور سوئم میں تقسیم کیا جائے، چونکہ سرمایہ کاری فریق سوئم کی ہے اور فریق اول محمد اعجاز کام کرہا ہے۔ کیونکہ مضاربت کی رو سے فریق اول محمد اعجاز کو منافع کا نصف ملنا چاہیے اور اب فریق دوئم متفق نہیں ہے۔ سپلائی کی سرمایہ کاری کل (پچپن لاکھ) 5500000 روپے ہے۔ جس میں فریق اول محمد اعجاز کا گاڑی میں (پانچ لاکھ) 500000 ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مذکورہ معاملہ شرکت اور مضاربت کا مجموعہ ہے۔فریق اول (محمد اعجاز) اور دوم( عبد الرؤف) کا ایک دوسرے کے ساتھ شرکت کا تعلق ہے، جبکہ ان دونوں کا تیسرے فریق (سرمایہ دینے والے) سے مضاربت کا تعلق ہے۔ اگر کبھی نفع بالکل نہ ہو تو مضارب کو کچھ نہیں ملے گا، ایسی صورت میں وہ مضاربت کے اصل سرمایہ سے کچھ نہیں لے سکتا، نہ ہی سرمایہ دینے والوں سے کوئی مطالبہ کرسکتا ہے۔

کل سرمایہ کاری پچپن لاکھ کی ہوئی ہے جس میں سے پانچ لاکھ فریق اول( محمد اعجاز) کے ہے باقی فریق ثالث(سرمایہ کار) کے، تو نفع کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جائیگا جو نفع پانچ لاکھ کے مقابلے میں آیا (  9.0909 فیصد) وہ صرف فریق اول اور دوم میں میں تقسیم کیا جائیگا اور جو باقی پچاس لاکھ کا نفع ہے(90.9090 فیصد)  وہ پہلے مضارب (اعجاز) اور سرمایہ کار کے درمیان مضاربت میں طے شدہ نسبت سے تقسیم کیا جائیگا، پھر جو مضارب اعجاز کو نفع ملے،  وہ اس کے اور فریق دوم (عبدالرؤف) کے درمیان شرکت میں طے شدہ تناسب سے تقسیم کیا جائیگا۔ لہٰذا اعجاز کا اپنے غیر عامل شریک(SLEEPING PARTNER) کو یہ کہنا کہ آپ کو کچھ نہیں ملے گا یہ بات ناجائز ہے۔

نوٹ: نفع کی حقیقی تقسیم اسی وقت ہوگی جب مضاربت کے کاروبار کی "تنضیضِ حقیقی" یا "تنضیضِ حکمی" کی جائے گی۔ "تنضیضِ حقیقی" کا مطلب یہ ہے کہ جب مضاربت ختم کرنا مقصود ہو تو مضاربت کے کاروبار کے جو اثاثے اور دیون یعنی قرضے ہوں ان سب کو نقد میں تبدیل کیا جائے۔ سرمایہ دینے والے نے جتنا سرمایہ لگایا تھا وہ اسے واپس کردیا جائے، اسی طرح جو اخراجات ہوئے ہوں یا کاروبار میں کوئی نقصان ہوا ہو اس کو منہا کیا جائے، اس کے بعد جو رقم بچ جائے وہ مضاربت کا حقیقی نفع کہلائے گا جو مضارِبین اور رب المال یعنی سرمایہ دینے والے  کے درمیان طے شدہ  تناسب کے اعتبار سے تقسیم ہوگا۔  اور"تنضیضِ حکمی" کا مطلب یہ ہے کہ مضاربت کے کاروبار کے اثاثوں کو بیچا نہ جائے، بلکہ ان کی قیمت لگائی جائے، اور قیمت کے ساتھ جو نقدی اور دیون ہوں ان کو ملالیا جائے اور ان سب کے مجموعے سے اولاً  رب المال کا لگایا ہوا سرمایہ منہا کیا جائے، اسی طرح کاروباری اخراجات اور اگر کوئی نقصان ہوا ہو تو ان کو بھی منہا کیا جائے گا، اس کے بعد جو کچھ بچے وہ مضاربت کا حقیقی نفع کہلائے گا جو طے شدہ فیصد کے حساب سے مضارِبین اور رب المال کے درمیان تقسیم ہوگا۔ اس طریقے سے نفع کی تقسیم کے بعداگر مضارِبین اور رب المال مضاربت کو جاری رکھیں تو شرعاً وہ نئے سرے سے مضاربت شمار ہوتی ہے، لہٰذا اگر اس میں نقصان ہوگا تو وہ پہلی مضاربت کے نفع سے پورا نہیں کیا جائے گا۔ مذکورہ بالا دو طریقوں کے بغیر نفع کی حقیقی تقسیم نہیں ہوسکتی۔ لیکن تنضیضِ حقیقی اور تنضیضِ حکمی تک اگر مضارِبین اور ارباب الاموال باہم رضامندی سے ماہانہ (یا وہ جو بھی مدت باہم رضامندی سے طے کرلیں) نفع تقسیم کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن جب تک تنضیضِ حقیقی  (Actual  Liquidation) یا تنضیضِ حکمی (Constructive  Liquidation) نہیں ہوتی اس  وقت تک نفع کی جو تقسیم ہوگی وہ علی الحساب ہوگی، حقیقی تقسیم تنضیضِ حقیقی یا تنضیضِ حکمی کے بعد ہوگی؛ لہٰذا اس وقت سرمایہ دینے والوں کو ان کا دیا ہوا سرمایہ واپس کیا جائے گا، اگر ان کا سرمایہ اس وقت موجود مال سے پورا نہ ہو تو مضاربین اور رب المال نے جتنا جتنا نفع لیا ہوگا، سب اسے واپس کریں گے، تاکہ پہلے سرمایہ پورا کیا جائے، اس کے بعد اگر کچھ بچے گا تو وہ طے شدہ تناسب سے تقسیم ہوگا، اگر سرمایہ کا نقصان کم ہو تو ہر شخص اپنے نفع کے حساب سے اتنی واپسی کرے گا جس سے تلافی ہوجائے۔   (شرکت کے نفع میں بھی یہی تفصیل ہوگی جو مضاربت میں ذکر ہوئی)۔

حوالہ جات
مجلة الأحكام العدلية (ص: 255)
المادة (1333) يتضمن كل قسم من شركة العقد الوكالة , وذلك أن كل واحد من الشركاء وكيل للآخر في تصرفه يعني في البيع والشراء وفي تقبل العمل من الغير بالأجرة فلذلك كما أن العقل والتمييز شرط في الوكالة فيشترط على العموم في الشركة أن يكون الشركاء عاقلين ومميزين أيضا.
المجلة (ص: 274):
مادة (1415): المضارب في المضاربة المطلقة لا يكون مأذونا بمجرد عقد المضاربة بخلط مال المضاربة بماله ولا بإعطائه مضاربة، لكن إذا كان في بلدة من عادة المضاربين فيها خلط مال المضاربة بما لهم في المضاربة المطلقة، فيكون المضارب مأذونا أيضا بذلك.
مادة (1417): إذا خلط المضارب مال المضاربة بماله فالربح الحاصل يقسم على مقدار رأس المال، بمعنى أنه يأخذ ربح رأس ماله، وربح مال المضاربة يقسم بينه وبين رب المال على الوجه الذي شرطاه.
مادة 1419: إذا ذهب المضارب بعمل المضاربة إلى محل غير البلدة التي وجد فيها مصروفه بالقدر المعروف من مال المضاربة.
المعاییر الشرعیة، معیار المضاربة (374۔373):
8/7 لا ربح في المضاربة إلا بعد سلامة رأس المال، ومتی حصلت خسارة في عملیات المضاربة جبرت من العملیات الأخری، فالخسارة السابقة یجبرها الربح اللاحق، والعبرة بجملة نتائج الأعمال عند التصفیةفإذا کانت الخسارة عند تصفیة العملیات أکثر من الربح یحسم رصید الخسارة من رأس المال، ولایتحمل المضارب منه شیئا باعتباره أمینًا ما لم یثبت التعدي أو التقصیر، وإذا کانت المصروفات علی قدر الإیرادات یتسلم رب المال ماله ولیس للمضارب شیئومتی تحقق ربح؛ فإنه یوزع بین الطرفین وفق الاتفاق بینهما.

عنایت اللہ عثمانی

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

01/ذی الحجہ/ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب