80573 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کہ بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بچی کا نکاح بچپن میں کروایا تھا۔ اب سابقہ نکاح کو فسخ کرنا چاہتے ہیں۔ بچی بھی فسخ نکاح پر راضی ہے۔ بچی کے والد نے کورٹ میں فسخ نکاح کی درخواست جمع کی ہےاور لڑکی کا شوہر نہ طلاق دے رہاہے نہ کورٹ میں پیش ہورہاہے۔ بچی کا والد نکاح اس لیے ختم کروارہاہے کہ لڑکے نے دوسری جگہ شادی کرلی ہےاور کام وغیرہ کرکے کماتا بھی نہیں ہے۔ لڑکے کے والدین اور لڑکا نکاح اس لیے ختم نہیں کرنا چاہتے کہ لڑکی دوسری جگہ نکاح نہ کرسکے اور ساری عمر بیٹھی رہے۔ یہ ضد ہے لڑکے اور اس کے والدین کی اور لڑکی بھی اپنے نکاح پر راضی نہیں ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
محض اس بناء پر بچی کا نکاح فسخ کروانا کہ اس کے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے ، جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر اُس کا شوہر بیوی کی رخصتی کروانے اور پاس رکھ کر ازدواجی حقوق اور تمام ضروری اخراجات کی ادائیگی پر راضی نہیں ہے تو اس بناء پر عدالت میں فسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرنا جائز ہے۔ پھر جب عدالت میں گواہوں کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائےاور عدالت اس بناء پر فسخ نکاح کی ڈگری جاری کرے تو نکاح فسخ مانا جائیگا ورنہ نہیں۔
حوالہ جات
أحكام الأحوال الشخصية في الشريعة الإسلامية (ص: 165)
وأما القاضي فلا يطلق الزوجة بناء على طلبها إلا في خمس حالات: التطليق لعدم الإنفاق، والتطليق للعيب و التطليق للضرر، والتطليق لغيبة الزوج بلا عذر، والتطليق لحبسه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 66)
(ولزم النكاح ولو بغبن فاحش) بنقص مهرها وزيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا) وكذا المولى وابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانة وفسقا
عنایت اللہ عثمانی
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
03/ذی الحجہ/ 1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |