021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فرائض کے بعد دعا کا حکم
80568نماز کا بیاننماز کےمتفرق مسائل

سوال

فرض نمازوں کے بعد جو اجتماعی دعا ہوتی ہے اس میں امام جو دعا مانگتے ہیں وہ مجھے دریافت کردیں ۔(مکمل دعا لکھ کر بتا دیں) اور نماز کے بعد اجتماعی دعا کروانے کا طریقہ بتا دیں ، بہت مہربانی ہوگی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فرض نمازوں کے بعد احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو معمول منقول ہے وہ یہ کہ آپ سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ "أَسْتَغْفِرُ اللهَ" کہتے اور اس کے بعد مختلف دعائیں منقول ہیں،جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

  1. "اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ".
  2. "لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الجَدِّ مِنْكَ الجَدُّ".
  3. "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَعَذَابِ الْقَبْرِ".

اس کے علاوہ فرائض کے بعد آج کل مروجہ طریقوں پر اجتماعی دعاء سنت سے ثابت نہیں ،قرآن کریم کی آیت:" ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً"[الأعراف: 55] ( یعنی تم اپنے پروردگار کو عاجزی کے ساتھ چپکے چپکے پکارا کرو)سے  آہستہ دعاء کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ مذاہب اربعہ کے جمہور فقہاء کی رائے ہے،لہذا سب سے افضل اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ امام اور مقتدی سب اپنی اپنی حاجات کے لیے آہستہ اور خشوع وخضوع سے اپنی اپنی دعاء مانگیں ،اس طرح جب دعاء مانگی جائے تو صورۃ اجتماع ہوجائےگا ،لیکن وہ ایک ضمنی چیز ہے، اصل اورمقصودی اجتماع نہیں۔

فرائض کے بعداجتماعی دعاء سنت نہیں ،مگر فی نفسہ بدعت بھی نہیں ،اس بارے میں اعتدال کی راہ یہ ہے کہ اس اجتماعی کیفیت کو بذاتِ خود مقصود بنا کر سنت یا واجب نہ سمجھا جائے ،نہ عملا اس کا اس طرح التزام کیا جائے کہ چھوڑنے کی صورت میں طعن وتشنیع اور تنقید کا سامنا کرنا پڑے،نیز جہاں مذکورہ مفاسد پائے جاتے ہوں وہاں اسے ترک کیا جائے ،کیونکہ فقہاء کی تصریحات کے مطابق کسی مستحب کام کا بھی اگر فرض و واجب کی طرح التزا م کیاجانے لگے تو اسے چھوڑنا لازم ہوجاتا ہے۔

لیکن چھوڑ نے میں بہت حکمت وتدبیر وتدریج سے کام لیاجائے ،پہلے کچھ عرصہ دعاء کی شرعی حیثیت اور مانگنے کے افضل طریقے کی تبلیغ کی جائے ،پھر کبھی کبھا ر اجتماعی دعاء کا ناغہ کیا جائے،پھر آہستہ آہستہ افضل طریقہ اختیا ر کیا جائے ،تاکہ فتنہ وفساد سے بچا جاسکے،لہذا جب تک دعاء نہ کروانے کی صورت میں فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو اس وقت تک ہر نماز کے بعد دعاء کی گنجائش ہے۔

نیز مخصوص صورتِ حال میں حاجات خاصہ کے لیے بلند آواز سے اجتماعی دعاء بلاشبہ سنت سے ثابت ہے ،بلکہ حاجت خاصہ کے بغیر بھی جہاں مذکورہ مفاسد نہ ہوں کبھی کبھی جہری اجتماعی دعاء کی گنجائش ہے۔

اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:"احسن الفتاوی":(10/ 239)

حوالہ جات
"صحيح مسلم" (1/ 414):
"عن عائشة، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا سلم لم يقعد إلا مقدار ما يقول: «اللهم أنت السلام ومنك السلام، تباركت ذا الجلال والإكرام» وفي رواية ابن نمير «يا ذا الجلال والإكرام»".
"صحيح مسلم" (1/ 414):
"عن ثوبان، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا انصرف من صلاته استغفر ثلاثا وقال: «اللهم أنت السلام ومنك السلام، تباركت ذا الجلال والإكرام» قال الوليد: فقلت للأوزاعي: " كيف الاستغفار؟ قال: تقول: أستغفر الله، أستغفر الله ".
"صحيح البخاري" (1/ 168):
"عن وراد، كاتب المغيرة بن شعبة، قال: أملى علي المغيرة بن شعبة في كتاب إلى معاوية: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد»".
"سنن النسائي" (8/ 266):
"عن مصعب بن سعد، وعمرو بن ميمون الأودي، قالا: كان سعد يعلم بنيه هؤلاء الكلمات، كما يعلم المكتب الغلمان، ويقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يتعوذ بهن في دبر كل صلاة «اللهم إني أعوذ بك من البخل، وأعوذ بك من الجبن، وأعوذ بك من أن أرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بك من فتنة الدنيا، وعذاب القبر»".
"معارف السنن "(۱۲۵/۳):
"ثم ان ما راج فی کثیر من بلاد الھند الجنوبیۃ الدعاء بکیفیۃ مخصوصۃ بعد الرواتب.....و یواظبون علی ھذا طول أعمارھم فی جمیع صلواتھم ویلتزمونہ التزام واجب وینکرون علی إمام ومأموم لایفعل ذلک وربما یفضی بھم الإنکار إلی خصام شدید وجدال قبیح،بل یؤدون إلی قبائح وفضائح من الجھالات الفاحشۃ ،ففی مثل ھذا یقال انہ بدعۃ تضمنت بدعات کثیرۃ".
"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح "(ج 4 / ص 33):
"من أصر على أمر مندوب وجعله عزما ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

02/ذی الحجہ 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے