021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرکت مع مضاربت جائز ہے۔
80550شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

مفتیان  کرام مندرجہ ذیل مسائل کے اوپر شرعی رہنمائی درکار ہے: فریق اول :عبدالحفیظ۔ فریق دوئم :عامر ۔فریق سوئم۔:ملک ولید۔ تینوں فریق مل کر خوشبوؤں کا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں جس میں فریق اول(عبدالحفیظ) کے 3 حصے ہیں، فریق دوئم(عامر) کے 2 حصے ہیں، اور فریق سوئم(ولید) کے 4 حصہ ہے۔ کاروبار کی ساری دیکھ بھال ولید کی ذمہ داری ہے ۔ شروع میں کاروبار آن لائن کیا جائے گا اور ہول سیل پر دکانداروں کو دیا جائے گا، پھر مستقبل میں اس کاروبار کو آن لائن کے ساتھ دوکان میں بھی شروع کیا جائے گا۔

 1۔کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع کا 40 فیصد حصہ ولید کو ملےگا ،اس کے بعد باقی کا 60 فیصد حصہ تینوں فریقوں میں ان کےحصوں کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا ۔کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے۔

 2۔مندرجہ ذیل کاروباری اخراجات کہا ں سے ادا کئے جائیں گے  (۱)ریکارڈ رکھنے کے لیے جو سافٹ ویئر بنایا جائے گا (۲)دکان بنانے میں جو خرچہ آئے گا (۳)دوکان کا کرایہ یا دوکان کا بل بجلی ہیں (۴)اگر مستقبل میں دکان پر ملازموں کی ضرورت پڑتی ہے تو ان کی تنخواہیں ۔(۵)دکان کا روزانہ کا خرچہ مثلاً چائے اور کھانا وغیرہ کا خرچہ

 3۔ منافع کس طرح سے معلوم کیا جائے گا؟

 4۔منافع کتنے عرصے کے بعد معلوم کیا جائے گا؟ روزانہ کی بنیاد پر کیا جائے گا یا ماہانہ بنیادوں پر۔

 5۔فرض کرتے ہیں ایک مہینے میں 5لاکھ کا مال فروخت ہوا ہے جس پر 50 ہزار کا منافع ہوا ہے اب ہم اس کو کاروبار میں ری انویسٹ کرتے ہیں تو کیا آیا 5 لاکھ 50ہزار کریں گے یا پھر ولید منافع کا 40 فیصد حصہ(20 ہزار) وصول کرنے کے بعد باقی 5 لاکھ 30 ہزار کی رقم ری انویسٹ کرے گا۔

 6۔ری انویسٹمنٹ سے پہلے منافع نکالنا ضروری ہے یا نہیں؟

 7۔مال کی خریداری کے بعد اگر مال کی قیمت بڑھ جائے تو کیا وہ بھی منافع میں شمار ہوگی یا نہیں؟، یا پھر فروخت ہونے کے بعد منافع معلوم کیا جائے گا؟۔

 8۔ مستقبل میں اگر کوئی فریق شراکت داری ختم کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔ مذکورہ صورت میں ولید شریک عامل ہے،لہذا اس کا حصہ اس کے سرمایہ کے تناسب سے زائد رکھا جاسکتا ہے،لہذا سؤال میں ذکرکردہ منافع کی تقسیم کےتناسب پر اگر سب شرکاء متفق ہیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔

۲۔یہ اخراجات منافع سے منہا کئے جائیں گے، اس سے پورے نہ ہوئے تو سرمایہ سے وصول کئے جائیں تناسب سے۔

۳۔اخراجات منہا کرنے کے بعد طے شدہ تناسب سے منافع تقسیم کیا جائے گا، نیزولید منافع کی تقسیم میں اولی استحقاق نہیں رکھتا، سب کے لیے منافع کی تقسیم  میں شریک ہوگا۔

۴۔تقسیم منافع کا کوئی بھی دورانیہ سہولت کے پیش نظر طے کیا جاسکتا ہے۔

۵ و۶۔ری انویسٹمنٹ کے لیے ولید کا بطور عامل(مضارب) کے منافع کو اصل رقم شرکت کے منافع سے الگ کرنا ضروری نہیں،بلکہ تمام شرکاء یا ان میں سے بعض جس قدر منافع ری انویسٹمنٹ کریں گے اسی تناسب سے ان کا سرمایہ کا تناسب بڑھے گا۔

۷۔ قیمت بڑھنے سے بھی نفع  ہوتا ہے،لیکن حقیقی منافع(جوقابل تقسیم ہوں)  اس چیز کو فروخت کرنے سے ہی حاصل ہوں گے۔

۸۔(۱)اس کے حصص کی موجودہ مارکیٹ کی قیمت لگاکر اس کا عوض کوئی شریک ادا کرکے اس کا مالک بن جائے یا (۲)انہیں فروخت کر کے اس کی قیمت اسے ادا کردی جائے گی، یا(۳)قابل تقسیم اثاثہ جات ہونے کی صورت میں ان کو ان کے حصص کے بقدر اثاثہ جات دے دئیے جائیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 312)
و (مع التفاضل في المال دون الربح وعكسه،
وفي النهر: اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط؛ وإن شرطاه على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية اهـ ما في النهر.
قلت: وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط، وهذا إذا كان العمل مشروطا كما يفيده قوله إذا شرطا العمل عليهما إلخ

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۲ذی الحجہ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب