80582 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
وفات پاجانےوالےافراد کاوراثت میں کیاحصہ ہوگا،اگران میں سےکسی نےاپنےحصےکی جائیدادکسی کودینےکی وصیت کی ہوتوکیااس کاحصہ دوسرےکومنتقل کرناشرعاٹھیک ہوگایانہیں؟اگرٹھیک ہوگاتوتقسیم کاکیاطریقہ کار ہوگا؟جبکہ اسی فوت شدہ فردنے مکان کی تعمیرومرمت کی غرض سےکسی سے2لاکھ روپےقرض بھی لیاہےتوکیااس کی وصیت کےباوجودوراثت کی رقم سےقرض دارکوقرض لوٹاناٹھیک ہوگایابقیہ دیگرافراد کےحصوں سےیہ رقم منہا کرکےقرض کی ادائیگی کی جائےگی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جوورثہ والدیاوالدہ سےپہلےفوت ہوچکےہیں،والدین کی میراث میں ان کاشرعاحصہ نہیں ہوگا،اگرچہ ان میں سےکسی نےاپنےحصےکی جائیدادکسی کودینےکی وصیت کی ہو۔
فوت شدہ فردنےمکان کی تعمیرومرمت کی غرض سےاگرقرض لیاہوتواس قرض کی ادائیگی اسی کےذمہ ہوگی،اس کی وفات کےبعد اس کےمال سےاس کی ادائیگی کی جائےگی۔
دیگرافرادکےحصوں سےیہ رقم منہاء نہیں کی جائےگی،ہاں اگراس کامال اتنانہ بچاہوکہ اس سےقرض ادا کیاجاسکےتوپھردیگرورثہ باہمی رضامندی سےاپنی طرف سےقرض کی ادائیگی کےلیےتیارہوجائیں تویہ ان کی طرف سےتبرع ہوگا،شرعادیگرورثہ پریہ اداکرنالازم نہیں ۔
حوالہ جات
"رد المحتار"758/6:وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه۔
"البحر الرائق شرح كنز الدقائق"25 / 17:
المراد من التركة ما تركه الميت خاليا عن تعلق حق الغير بعينه۔
"السراجی فی المیراث "5،6 : الحقوق المتعلقہ بترکۃ المیت :قال علماؤنارحمہم اللہ تعالی تتعلق بترکۃ المیت حقوق اربعۃ مرتبۃ الاول یبدأبتکفینہ وتجہیزہ من غیرتبذیرولاتقتیر،ثم تقصی دیونہ من جمیع مابقی من مالہ ثم تنفذوصایاہ من ثلث مابقی بعدالدین ،ثم یقسم الباقی بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ ۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
04/ذی الحجۃ 1444ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |