021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قران پر حلف اٹھایا کہ بیوی کو گھر نہیں آنے دوں گا
80606قسم منت اور نذر کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

محترم اسکالر میرا سوال یہ ہے کہ میرے اور میری اہلیہ کے درمیان پچھلے چار سال سے جھگڑے چل رہے ہیں ۔ اس قسم کے جھگڑوں کی وجہ یہ ہے کہ میری بیوی نے مجھے منفی سماجی بدنامی کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے میں اسے کبھی کبھی برداشت نہیں کر پاتا۔ اس وقت ہمارے درمیان گرما گرم بحث ہوئی اور اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے تین بچوں سمیت میرا گھر چھوڑ کر چلی گئی اور وہ ایک ویران عورت ہے اس کے جانے کے بعد میں نے دو دن انتظار کیا اور اس کی واپسی کی درخواست کی لیکن حسب معمول اس نے ٹھکرا دیا۔ نتیجتاً مجھے قرآن پاک پر حلف اٹھانے پر مجبور کیا کہ اب میں اس خاتون کو دوبارہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہونے دوں گا۔ وقت گزرتا جا رہا ہے اور اب 2 ماہ کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کر دیا اور اب وہ میرے گھر واپس آنا چاہتی تھی تو ایسے حالات میں میں کیا کروں کیونکہ میں نے قرآن پاک پر حلف اٹھایا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآن پر حلف اٹھانے سے قسم منعقد ہوجاتی ہے اور اس کو پورا کرنا لازم ہوتا ہے۔البتہ اگر کوئی ایسا کام نہ کرنے کی قسم اٹھائی جس کا کرنا زیادہ بہتر تھا تو پھر قسم کو توڑ کروہ کام کرنا اور  قسم  کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔

سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق قرآن پر حلف اٹھانے سے قسم منعقد ہوگئی ہے ۔ اب اگر آپ اپنی بیوی کو گھر بلانا چاہتے ہیں تو قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔قسم کا کفارہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا  یا   کپڑے  پہنانا ہے اور اگر کوئی شخص غریب ہو اور اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر مسلسل تین روزے رکھنے کا حکم ہے۔

حوالہ جات
(المائدة: 89)
﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾
الدر المختار (3/ 712)
(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولا يخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينا. وأما الحلف بكلام الله فيدور مع العرف. وقال العيني: وعندي أن المصحف يمين لا سيما في زماننا. وعند الثلاثة المصحف والقرآن وكلام الله يمين.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 713)
 ونقل في الهندية عن المضمرات: وقد قيل هذا في زمانهم، أما في زماننا فيمين وبه نأخذ ونأمر ونعتقد. وقال محمد بن مقاتل الرازي: إنه يمين، وبه أخذ جمهور مشايخنا اهـ فهذا مؤيد لكونه صفة تعورف الحلف بها كعزة الله وجلاله (قوله فيدور مع العرف) لأن الكلام صفة مشتركة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 728)
وحاصله أن المحلوف عليه إما فعل أو ترك، وكل منهما إما معصية وهي مسألة المتن، أو واجب كحلفه ليصلين الظهر اليوم وبره فرض، أو هو أولى من غيره أو غيره أولى منه كحلفه على ترك وطء زوجته شهرا ونحوه وحنثه أولى، أو مستويان كحلفه لا يأكل هذا الخبز مثلا وبره أولى،

عبدالقیوم   

دارالافتاء جامعۃ الرشید

22/ذو الحجہ/1444            

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقیوم بن عبداللطیف اشرفی

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے