021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ورثہ میں سے دوبیٹوں کا میراث میں ہبہ کا دعوی کرنا
80639دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

    میں محمد اسلم ولد غلام نبی گزارش کرنا چاہتاہوں کہ میرے والد صاحب نے انتقال سے تقریباً ایک دو دن پہلے مجھے یہ کہاتھاکہ "میرے بیٹے میرے مرنے کے بعد اس مکان میں سب بہن بھائیوں کا حصہ ہے" لیکن میرے چاربھائیوں میں سے دو بھائی کسی  کو بھی حصہ دینانہیں چاہتے،میں نے ان سے کہاکہ ہم شرعی طورپر مفتی صاحب سے فتوی لے لیتے ہیں مگردونوں بھائیوں نے انکارکردیاپھر میں نے کہا کہ ہم قرآن کریم سے مدد لیتے ہیں مگر اس پر بھی انکارکردیا،اس کے بعد دونوں بھائیوں نے کہ کہ یہ مکان ہم دونوں بھائیوں کاہے۔

اب  میرےسوالات درج ذیل ہیں :

١١۔ ان حالات کی روشنی میں مذکورہ مکان کا کیاحکم ہے؟

۲۔ان دوبھائیوں نے جو شریعت اورقرآن دونوں سے انکارکیاہے کیا اس کی وجہ سے یہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے ہیں،کفرکے مرتکب ہوئے ہیں یا منافق ہوئے ہیں یانہیں؟ 

۳۔ میں نے ان سے کہاتھا کہ اللہ تعالی کو حاضر وناظر جان کر حلف اٹھاؤ تو دونوں نے فوری حلف اٹھایا،کیااس سے 7بہن بھائیوں کا حق ختم ہوا؟ اورکیا میرے اس حلف پر فیصلہ کرنےسے جو بہن بھائیوں کا حق ماراجائے گا آخرت میں اس حوالے سے میری پکڑہوگی ؟

درخواست ہے کہ مجھے اس پریشانی سے نکالاجائے اورقرآن اورسنت کی روشنی میں فتوی صادر فرمائیں،میں جناب کا شکرگزارہونگا۔

سائل نے فون پر زبانی بتایاکہ یہ مکان والدصاحب کا تھااورآخرتک انہیں کے تصرف میں رہا انہوں نے اس کو کرایہ پر دیاتھا اوربھائی کے ذریعے اس کا کرایہ  وہ خود وصول فرماتے تھے،جبکہ یہ دونوں بھائی اب یہ دعوی کررہے ہیں کہ مکان والد صاحب نے ہم دونوں کو دیا تھا جبکہ ثبوت ان کے پاس کوئی نہیں ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔ اگر اس مکان کا رقبہ اتنا زیاہ ہے کہ دو حصوں میں تقسیم کے بعد بھی انتفاع کے قابل رہے گا تو پھر والد کی جانب سے کیا گیا ہبہ جیسے ان دوبھائیوں کا دوعوی ہے درست نہیں ہوا،کیونکہ ہبہ درست ہونے کے لیے قابل تقسیم چیز کو تقسیم کرکے حوالے کرنا ضروری ہے،جبکہ مذکورہ صورت میں انہوں نے اس مکان کو باقاعدہ تقسیم کرکے ہر بیٹے کو اس کا حصہ نہیں دیا،بلکہ پورا مکان بغیر تقسیم کے انہیں ہبہ کردیا۔

اور اگر یہ مکان تقسیم کے قابل نہیں،یعنی دومیں تقسیم کے بعد قابل انتفاع نہیں رہے گاتو پھر اس دو بھائی  کے ذمے جو اس بات کا دعویدار ہیں کہ یہ مکان والد نے  ان کودیاتھا، لازم ہے کہ وہ اپنے اس دعوی کو عدالت یا پنچائیت کے سامنے دو مردوں یا ایک مرد اوردوعورتوں کی گواہی سے ثابت کردیں کہ والد  نےجائیداد میں سے یہ مکان ہم دو بھائیوں  کوہبہ کرکے ہمارےقبضے میں بھی دے دیا تھا،کیونکہ قبضہ دیئے بغیر صرف نام کروانے سے ہبہ مکمل نہیں ہوتا اور ایسی چیز میراث کا حصہ ہوتی ہے۔

اگر ان دو بھائیوں نے گواہوں کے ذریعے اپنےاس دعوی کو ثابت کردیا تو فیصلہ ان کے حق میں کردیا جائے گا،لیکن اگر وہ اپنے دعوی کو دو گواہوں سے ثابت نہ کرسکیں توپھردیگربہن بھائیوں سے یوں قسم لی جائے گی کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اس کےمرحوم والد نے یہ مکان ان  دوبھائیوں کو ہبہ کیا تھا،اگر وہ اس طرح قسم اٹھالیں تو پھریہ مکان بھی والدکے ترکہ( انتقال کے وقت جو بھی چھوٹا بڑا سامان سونا،چاندی،نقدی اور جائیداد وغیرہ کی صورت میں ان  کی ملکیت تھا)میں شامل ہوکر ان کی وفات کے وقت موجود ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا،اوران دوبھائیوں کا دعوی باطل ہوگا۔

۲۔ان کا یہ عمل یقیناً برا ہے کہ نہ تو وہ کسی فتوی پر اعتماد کرتے ہیں اورنہ ہی قرآن سے رہنمائی پر راضی ہیں، تاہم اس عمل سے وہ دائرہ اسلام سے نہیں نکلےاورنہ ہی منافق ہوئے۔

۳۔ قسم لینےسے آپ بہن بھائیوں میں کسی کا حق ختم نہیں ہوا،اورنہ ہی آپ ان سے قسم لینے کے مجازہیں اورنہ اس پر فیصلہ کرسکتے ہیں،اس لیے کہ وہ مدعی ہیں تو آپ کا حق شرعاً ان سے گواہ طلب کرناہے  نہ کہ قسم لینا،قسم مدعی علیہ سے لی جاتی ہے نہ کہ مدعی سے،نیز آپ صرف اپنے حصے کاتصفیہ ان کےساتھ کرسکتےہیں باقی بہن بھائیوں کے حق کا تصفیہ جب تک وہ آپ کو وکیل نہ بنائیں  آپ نہیں کرسکتے،لہذا آپ نے جو ان سے قسم لی ہے وہ شرعامعتبرنہیں اوراس  سے کسی کا حق ختم ہوا اور ان کے ذمہ شرعاً گواہ   پیش کرنا ہے نہ کہ قسم۔

حوالہ جات
الدر المختار " (5/ 690)
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به)..... (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع ".
"رد المحتار"(5/ 697)
"(وهب اثنان دارا لواحد صح) لعدم الشيوع (وبقلبه) لكبيرين (لا) عنده للشيوع فيما يحتمل القسمة أما ما لا يحتمله كالبيت فيصح اتفاقا قيدنا بكبيرين؛ لأنه لو وهب لكبير وصغير في عيال الكبير أو لا بنيه صغير وكبير لم يجزاتفاقا".
وفی ’’شرح المجلۃ‘‘:
’’لایجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیره بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، وإن فعل کان ضامنًا‘‘. (شرح المجلة، ج:۱، ص:۶۱، مادة: ۹۶، دار الکتب العلمیة، بیروت)
وفیہ ایضاً:
لیس لأحد أن یأخذ مال غیرہ بلا سبب شرعي۔ (شرح المجلۃ ۱؍۶۱ رقم المادۃ: ۹۷)
وفی شعب الایمان للبیھقی:
عن علی بن زید عن أبي حرۃ الرقاشيؓ عن عمہ: أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: ألا ! لایحل مال إمرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ۔ (شعب الإیمان للبیہقي، باب في قبض الید عن الأموال
المحرمۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۴/۳۸۷، رقم:۵۴۹۲)
وفی السنن الکبری للبیھقي:
عن ابن أبي ملیکۃ قال: کنت قاضیا لابن الزبیر علی الطائف، فذکر قصۃ المرأتین، قال: فکتبت إلی ابن عباسؓ، فکتب ابن عباس رضی اﷲ عنہما إن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لو یعطی الناس بدعواهم لادعی رجال أموال قوم ودماء ہم، ولکن البینۃ علی المدعي، والیمین علی من أنکر۔ (السنن الکبری للبیھقي، مکتبہ دارالفکر بیروت ۱۵/ ۳۹۳، رقم: ۲۱۸۰۵)
"البحر الرائق " (7/ 217)
"(قوله: وعلى العلم لو ورث عبدا فادعاه آخر) ؛ لأنه لا علم له بما صنع المورث فلا يحلف على البتات أطلقه فشمل ما إذا ادعاه ملكا مطلقا أو بسبب من المورث".

  سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

 26/7/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب