021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں تقسیم جائیداد
80675ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ایک شخص وفات پا گیا ہے جس کی جائداد زرعی زمین وغیرہ ہے اس کی وراثت کا معاملہ کیسے ھوگا فوتی کا نام غلام قادر ہے پسماندگان میں 2 بیویاں ہیں اور اولاد میں بیٹے 1 غلام حیدر2غلام مصطفیٰ 3 ممتاز علی 4نادر علی 5 محمد علی 6 فاروق احمد 7 توفیق احمد 8 لال محمد بیٹے 6 ٹوٹل ہین بیٹیاں ٹوٹل 6 ہیں بڑی بیوی سے ایک بیٹی اور 6 بیٹے ہیں اور چھوٹی بیوی سے 5 بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں مرحوم اپنی حیاتی زندگی میں تقسیم اس طرح کر گیا کہ بیویوں اور بیٹیوں کا حصہ نہیں نکالا تھا صرف بیٹوں میں تقسیم کیا ان میں سے ایک بیٹا لال محمد (جو غیر شادی شدہ تھا )والد کے انتقال کے تھوڑے عرصے بعد وفات کر گیا باب نے 8 ایکڑ زرعی زمین اپنے لیے رکھی تھی جو چھوٹی گھر والی کے ساتھ رہنے کی وجھ سے ان کے حوالے تھی اب ملکیت جو جس کے حوالے ہے وہ ہی مالک ہے یا دوبارہ وراثت ھوگی؟ اگر دوبارہ ھوگی تو کس ترتیب سے؟ باپ والا حصہ اور مرحوم بھائی والا حصہ کس کو ملے گا؟ فاروق احمد مھر، ضلع شکارپور

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اولاد کو ہدیہ دینے میں برابری لازم ہے،بلاوجہ کسی کو کم کسی کو زیادہ دیادہ دیناناجائز ہے،البتہ کسی معقول وجہ ، مثلا دینداری،خدمت،تنگ دستی وغیرہ کی بناء پر کسی ایک کو زیادہ دے دینا جائز ہے۔نیز اگر اولاد میں سے کوئی ایک یا سب بے دین ہوں اور اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ والد کے مال کے کو ناجائز کاموں میں استعمال کریں گے تو انہیں ضرورت سے زیادہ نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ ضرورت کے بقدر دے کر بقیہ مال کو خیر کے کاموں میں صرف کردینا بہتر ہے۔

اپنی زندگی میں اولاد کوجائیداد دینا ہبہ ہے،اور ہبہ میں قبضہ ضروری ہے،اس لیے  اگر والدنے قبضہ دیا ہے اس طور پر  کہ اس جائیداد سےاپنے تصرفات ختم کرکے ، اس کے تمام حقوق اور سارے متعلقہ امور سے دستبردار ہوکر بیٹوں کے حوالے کردی ہو تویہ جائیدادبیٹوں کی ملکیت میں آگئی ہے۔ البتہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ باقی ورثہ کو اس میں سے مناسب حصہ دے کر راضی کریں،تاہم اگر وہ نہ دینا چاہیں تو قانونا ان کے اوپر لازم نہیں ہے۔اگر قبضہ نہ دیا ہو بلکہ فقط نام کردی ہو یا صرف زبانی بات کی ہوتو پھر یہ جائیداد اولاد کی ملکیت میں نہیں آئی ہے،لہذا وہ میراث کا حصہ بن کر ورثہ کے درمیان اپنے حصص کے مطابق تقسیم ہوگی۔

مرحوم نے  فوت ہوتے وقت  ترکہ میں جو کچھ چھوڑا  تھا وہ سب ورثہ میں شرعی طور پر تقسیم ہوگا،جس کی صورت یہ ہے کہ تمام مال واسباب کی قیمت لگائی جائے،اور اس سے کفن دفن کے معتدل اخراجات نکالے جائیں،پھر اگر میت پر قرضہ ہو تو وہ ادا کیا جائے،اگر انہوں نے وارث کے علاوہ کسی کے لیے وصیت کی ہوتو ایک تہائی سے وہ ادا کی جائے،اس کے بعد بقیہ مال  ورثہ میں تقسیم کیاجائے، میراث کی تقسیم اس طرح ہوگی:

1۔دونوں بیویوں کا مجموعی حصہ: 12.5 فیصد ہو گا۔(یعنی ہر بیوی کو6.25فیصد حصہ ملے گا۔)

2۔ آٹھ بیٹوں کا مجموعی حصہ: 63. 64(یعنی ہر بیٹے کو7.95فیصد حصہ ملے گا۔)

3۔چھ بیٹیوں کا مجموعی حصہ: 23.86(یعنی ہر بیٹی کو 3.98فیصد حصہ ملے گا۔)

بیٹے لال محمد کی ملکیت میں موجود مال وجائیداد اور والد کی میراث میں سے ملنے والا حصہ ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگا۔ان کی میراث کی تقسیم کا طریقہ کار وہی ہوگا جو اوپر نمبر دو میں گذر چکاہے،البتہ میراث کے حصوں کے بارے میں دوباتیں ملاحظہ ہوں۔

1۔لال محمد کے بارے میں ذکر نہیں کہ کونسی بیوی سے ہے،اور ان کے حقیقی بھائی اور بہنیں کتنی ہیں، اس لیے یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر لال محمد کے حقیقی بہن ،بھائی موجود ہوں تو ان کی سوتیلی ماں اور سوتیلے بہن بھائیوں کو ان کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا۔

2۔ان کی میراث میں سے ان کی حقیقی ماں کو 16.67فیصد حصہ ملے گا،بقیہ مال ان کے حقیقی بھائیوں اور بہنوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ بھائیوں کو دوگنا(ڈبل )حصہ ملے گا اور بہنوں کوبھائیوں کے مقابلے میں آدھا یعنی ایک حصہ ملے گا

حوالہ جات

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

28/ذی الحجہ1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے