021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کا مطالبہ کرنے اور میکے میں عدت گزارنے والی خاتون کے نان نفقہ کا حکم
80702نان نفقہ کے مسائلعدت والی عورت کے نان نفقہ اور رہائش کے مسائل

سوال

خلاصۂ سوال:

میری شادی ایک لڑکی سے ہوئی، اس میں لڑکی کے خاندان والوں کی مرضی شامل تھی، لیکن مبینہ طور پر لڑکی کی مرضی شامل نہیں تھی۔ شادی کے بعد کچھ عرصہ سب ٹھیک چلتا رہا، میں نے اپنی بیوی کی ہر جائز ضرورت اور خواہش پوری کرنے کی کوشش کی۔ لیکن میری بیوی رات دیر تک موبائل استعمال کرتی تھی اور صبح دن چڑحے تک تک سوتی رہتی تھی جس سے مجھے ذہنی اور جسمانی کوفت ہونے لگی، وہ میری خدمت سے قاصر رہتی، میں اپنے کام کاج کی وجہ سے صبح جلدی اٹھنے کا پابند تھا، ناشتہ اور دن کے باقی حصے میں بھی اس کا رویہ یہی ہوتا۔ اس طرزِ زندگی اور بیوی کی نافرمانی کی وجہ سے بات تکرار تک پہنچ گئی، اس کی طرف سے ہر جھگڑے میں طلاق کا مطالبہ ہونے لگا۔ نیز اس کا ایک اور شخص سے تعلق تھا جو موبائل ریکارڈ سے ظاہر ہوا، میری بیوی نے میرے سامنے اس کا اعتراف کیا اور خاندان کے افراد نے بھی اس بات کو تسلیم کیا۔ میرے ساتھ شادی کا اس کی مرضی کے خلاف ہونا اور اس کا شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی اور سے تعلق بنالینا اس کی طرف سے طلاق کے مطالبے کی دو اہم وجوہات تھیں۔ میں اپنا گھر بسانا چاہتا تھا، طلاق نہیں دینا چاہتا تھا، لیکن جب یہ حقیقت سامنے آئی اور بیوی کی طرف سے بار بار مطالبہ ہونے لگا تو ایک جھگڑے میں بامر مجبوری میں نے تین طلاقیں دیدیں۔ طلاق کے بعد اب وہ اپنے والدین کے گھر عدت کے ایام گزار رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ بیوی کے اس رویے اور شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی اور سے تعلق بنانے اور اس کے بار بار مطالبے پر طلاق دینے کی صورت میں مجھ پر عدت کا خرچہ لازم ہوگا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں چونکہ آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، چاہے اس کا سبب جو بھی تھا، اس لیے یہ جدائی آپ کی طرف سے آئی ہے، لہٰذا آپ پر عدت کا نان نفقہ اور اپنے اسی گھر میں اس کی رہائش  کا انتظام لازم ہے جس گھر میں آپ دونوں طلاق سے پہلے رہائش پذیر تھے۔ اگر آپ کی مطلقہ بیوی آپ کے گھر میں عدت نہیں گزار رہی اور خود اپنے والد کے گھر چلی گئی ہے، آپ نے اس کو اپنے گھر سے نہیں نکالا تو پھر "نشوز" یعنی نافرمانی کی وجہ سے اس کی عدت کا نان نفقہ آپ سے ساقط ہوا ہے، تاہم اگر وہ واپس آپ کے گھر آکر وہیں عدت مکمل کرے تو پھر آپ پر عدت کا نان نفقہ لازم ہوگا۔   

حوالہ جات
الدر المختار (3/ 611-609):
( و ) تجب ( لمطلقة الرجعي والبائن والفرقة بلا معصية كخيار عتق وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة ) ………. ( وتجب السكنى ) فقط ( لمعتدة فرقة بمعصيتها ) إلا إذا خرجت من بيته فلا سكنى لها في هذه الفرقة، قهستاني وكفاية ( كردة ) وتقبيل ابنه ( لا غير ) من طعام وكسوة……. ( وتسقط النفقة بردتها بعد البت ) أي إن خرجت من بيته، وإلا فواجبة، قهستاني.
حاشية ابن عابدين (3/ 609)
قوله ( وتجب لمطلقة الرجعي والبائن ) كان عليه إبدال المطلقة بالمعتدة؛ لأن النفقة تابعة للعدة، ………. وفي الذخيرة: وتسقط بالنشوز، وتعود بالعود. وأطلق فشمل الحامل وغيرها والبائن بثلاث أو أقل كما في الخانية …..  قوله ( والفرقة بلا معصية ) أي من قبلها، فلو كانت بمعصيتهما فليس لها سوى السكنى كما يأتي.
 قال في البحر: فالحاصل أن الفرقة إما من قبله أو من قبلها، فلو من قبله فلها النفقة مطلقا سواء كانت بمعصية أو لا، طلاقا أو فسخا، وإن كانت من قبلها، فإن كانت بمعصية فلا نفقة لها، ولها السكنى في جميع الصور ا هـ ملخصا.
الفتاوى الهندية (1/ 557)
فإن أسلمت المرتدة والعدة باقية فلا نفقة لها، بخلاف ما لو نشزت فطلقها ثم تركت النشوز فلها النفقة، كذا في محيط السرخسي. والأصل في هذه أن كل امرأة لم تبطل نفقتها بالفرقة ثم بطلت في العدة بعارض منها، ثم زال العارض في العدة تعود نفقتها، وكل من بطلت بالفرقة لا تعود النفقة إليها في العدة وإن زال سبب الفرقة،كذا في البدائع.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

         28/ ذو الحجۃ /1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے