021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دائمی مریض پر روزے کے فدیہ کا حکم
80757روزے کا بیانوہ اعذار جن میں روزھ رافطارکرنا) نہ رکھنا( جائز ہے

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دائمی مریض پر فدیہ واجب ہے یا نہیں ؟ فتاوی میں وجوب کا قول موجود ہے، لیکن مجھے اشکال ہے کہ شیخ فانی کا مسئلہ تو خلاف قیاس ہے، لہذا اصول کے مطابق دائمی مریض کو اس پر قیاس کرنا صحیح معلوم نہیں ہوتا ، جبکہ یہ مسئلہ تکلیف مالا يطاق کے اصول کے بھی خلاف ہے۔ اس طرح اس عبارت سے تعارض معلوم ہوتا ہے جو تمام کتابوں میں موجود ہے: "إن مات المريض أو المسافر وهما على حالهما: لم يلزمهما القضاء ۔ " دائمی مریض کا مسئلہ متون میں بھی موجود نہیں ہے۔ گزارش ہے کہ علمائے کرام شیخ فانی کے مسئلہ پر غور کریں کہ آیا یہ مسئلہ تکلیف مالا یطاق کے اصول کے خلاف تو نہیں؟ جبکہ یہ اصول صریح قطعی نص سے ثابت ہے اور شیخ فانی کا مسئلہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول سے  ثابت ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دائمی مریض سے مراد وہ شخص ہے جو فی الحال مرض کی وجہ سے روزے پر قادر نہ ہو اور مرض کے دائمی ہونے کی وجہ سے مستقبل میں بھی قدرت کی امید نہ ہو۔ دائمی مریض پر خود شیخ فانی کی تعریف صادق آتی ہے ۔ دائمی مریض پر فدیے کے  وجوب کا حکم شیخ فانی پر قیاس کرکے ثابت نہیں کیا گیا ہے کہ اشتراک علت کی وجہ سے تعدیہ حکم ہوا ہو، بلکہ دائمی مریض اور شیخ فانی حکما ایک ہی ہےاور اس پر فدیے کا حکم شیخ فانی ہونے کی وجہ سے ہے۔

باقی جہاں تک  ان جیسے عبارات سے تناقض کا مسئلہ ہے:"(ولا قضاء إن ماتا على حالهما)" تو  عبارات میں جس مریض کا ذکر ہےوہ اگرچہ فی الحال روزے پر قادر نہیں لیکن مستقبل میں اس کے قادر ہونے کی امید ہوتی ہےکیونکہ اس کا مرض دائمی نہیں ہوتا، لہٰذا اس پر شیخ فانی کی تعریف صادق نہیں آسکتی۔ (واللہ اعلم بالصواب)

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 427)
(قوله وللشيخ الفاني) أي الذي فنيت قوته أو أشرف على الفناء، ولذا عرفوه بأنه الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت نهر، ومثله ما في القهستاني عن الكرماني: المريض إذا تحقق اليأس من الصحة فعليه الفدية لكل يوم من المرض اهـ وكذا ما في البحر لو نذر صوم الأبد فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة له أن يطعم ويفطر لأنه استيقن أنه لا يقدر على القضاء (قوله العاجز عن الصوم) أي عجزا مستمرا كما يأتي، أما لو لم يقدر عليه لشدة الحر كان له أن يفطر ويقضيه في الشتاء فتح (قوله ويفدي وجوبا) لأن عذره ليس بعرض للزوال حتى يصير إلى القضاء فوجبت الفدية نهر، ثم عبارة الكنز وهو يفدي إشارة إلى أنه ليس على غيره الفداء لأن نحو المرض والسفر في عرضة الزوال فيجب القضاء وعند العجز بالموت تجب الوصية بالفدية.
المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذهبي (2/ 81، بترقيم الشاملة آليا):
1607 - أخبرنا إسماعيل بن محمد بن إسماعيل الفقيه بالري ثنا أبو حاتم محمد بن إدريس ثنا محمد بن عبد الله الرقاشي ثنا وهيب ثنا خالد الحذاء عن عكرمة عن ابن عباس قال : رخص للشيخ الكبير أن يفطر و يطعم عن كل يوم مسكينا و لا قضاء عليه
هذا حديث صحيح على شرط البخاري و لم يخرجاه و فيه الدليل
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 249):
"(ولا قضاء إن ماتا على حالهما) أي المريض مطلقا سواء كان الحقيقي أو الحكمي كالحامل والمرضع والحائض وغيرهن والمسافر فلا تجب عليهما الوصية بالفدية؛ لأنهما لم يدركا عدة من أيام أخر فلم يوجد شرط وجوب الأداء فلم يلزم القضاء."
ملتقى الأبحر (ص: 366):
"يباح الفطر لمريض خاف زيادة مرضه بالصوم وللمسافر وصومه أحب إن لم يضره ولا قضاء إن ماتا على حالهما ويجب بقدر ما فاتهما إن صح أو أقام بقدره وإلا فبقدر الصحة والإقامة فيطعم عنه وليه لكل يوم كالفطرة ويلزم من الثلث إن أوصى وإلا فلا لزوم وإن تبرع به صح والصلاة كالصوم وفدية كل صلاة كصوم يوم وهو الصحيح ولا يصوم عنه وليه ولا يصلي وقضاء رمضان إن شاء فرقه وإن شاء تابعه فإن أخره وحتى جاء آخر قدم الأداء ثم قضي ولا فدية عليه والشيخ الفاني إذا عجز عن الصوم يفطر ويطعم لكل يوم كالفطرة وإن قدر بعد ذلك لزمه القضاء."

عنایت اللہ عثمانی عفی اللہ عنہ

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

04/محرم الحرام/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے