80416 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرے تایا کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے، صرف دو بیٹیاں اور ان کی زوجہ ہیں۔ مرحوم کا نام مجید ابراہیم تھا۔ اب پوچھنایہ ہے کہ مرحوم کے ترکے میں سے ان کے بھائی بہنوں کو وراثت میں حصہ ملے گا یا نہیں؟ ملے گا تو کتنا ملے گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والدمرحوم کے ترکہ میں سے پہلےتجہیز وتکفین کے اخراجات نکالے جائیں گے، بشرطیکہ یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان نہ اٹھائے ہوں،اس کے بعد قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی پھر اگر انہوں نے کوئی جائزوصیت کی ہوتو وہ ان کے کل ترکہ کے ایک تہائی (1/3)حصے میں نافذ ہوگی، اس کے باقی ترکہ مرحوم کی وفات کے وقت زندہ وارثوں میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
پوچھی گئی صورت میں کل مال کے چوبیس حصے کئے جائیں گے، میت کی زوجہ کو تین حصے ، دو بہنوں کو سولہ حصے اور باقی پانچ حصے میت کے بھائی بہنوں کے درمیان اس تفصیل کے ساتھ تقسیم ہوں گے کہ بھائی کے دو حصے اور بہن کا ایک حصہ ہوگا۔
حوالہ جات
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ} [النساء: 11]
{ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 12]
محمد جمال ناصر
دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی
04/محرم الحرام/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | جمال ناصر بن سید احمد خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |