021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہاروت و ماروت اور زہرہ کے قصے کی حقیقت
80767حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا ہاروت و ماروت اور زہرہ کا قصہ کسی حدیث سے ثابت ہے یا من گھڑت ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکورہ روایت سنن سعید بن منصور میں مذکور ہے، روایت کے الفاظ یہ ہیں:

سنن سعيد بن منصور (581/2):

"حدثنا سعيد، قال: نا عتاب بن بشير، عن خصيف، قال: كنت مع مجاهد، فمر بنا رجل من قريش، فقال له مجاهد: حدثنا ما سمعت من أبيك، قال: حدثني أبي أن الملائكة حين جعلوا ينظرون إلى أعمال بني آدم وما يركبون من المعاصي الخبيثة - وليس يستر الناس من الملائكة شيء-، فجعل بعضهم يقول لبعض: انظروا إلى بني آدم كيف يعملون كذا وكذا، ما أجرأهم على الله! يعيبونهم بذلك. فقال الله عز وجل لهم: قد سمعت الذي تقولون في بني آدم، فاختاروا منكم ملكين أهبطهما إلى الأرض، وأجعل فيهما شهوة بني آدم. فاختاروا هاروت وماروت، فقالوا: يا رب، ليس فينا مثلهما، فأهبطا إلى الأرض، وجعل فيهما شهوة بني آدم، ومثلت لهما الزهرة في صورة امرأة، فلما نظرا إليها، لم يتمالكا أن تناولا منها ما الله أعلم به، وأخذت الشهوة بأسماعهما وأبصارهما، فلما أرادا أن يطيرا إلى السماء، لم يستطيعا، فأتاهما ملك، فقال: إنكما قد فعلتما ما فعلتما، فاختارا عذاب الدنيا، أو عذاب الآخرة، فقال أحدهما للآخر: ماذا ترى؟ قال: أرى أن أعذب في الدنيا ثم أعذب، أحب إلي من أن أعذب ساعة واحدة في الآخرة، فهما معلقان منكسان في السلاسل، وجعلا فتنة."

ترجمہ: حضرت خصیف فرماتے ہیں کہ مَیں حضرت مجاہد کے ساتھ تھا تو قریش کے ایک شخص کا گزر ہوا، حضرت مجاہد نے اس سے کہا کہ جو خبر تم نے اپنے والد سے سن رکھی ہے وہ ہمیں سناؤ! چنانچہ اس شخص نے کہا کہ میرے والد نے مجھے یہ واقعہ بتایا تھا کہ جب فرشتوں نے بنی آدم کے اعمال اور کرتوت دیکھے – فرشتوں سے انسان کے اعمال پوشیدہ نہیں ہیں – تو وہ آپس میں ایک دوسرے سے یہ  کہنے لگے کہ دیکھو، بنی آدم کیسے کیسے اعمال کر رہے ہیں، انہیں اس کا کیا بدلہ ملے گا! اس طرح فرشتے انہیں حقیر سمجھنے لگے۔ تو اللہ نے ان سے کہا کہ مَیں وہ ساری باتیں سن چکا ہوں جو تم بنی آدم کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ لہٰذا تم دو فرشتوں کا انتخاب کرو جن کو مَیں زمین میں اتار کر ان میں بنی آدم جیسی شہوت پیدا کردوں گا۔ چنانچہ فرشتوں نے ہاروت اور ماروت کا انتخاب کیا، اور آکر عرض کیا، یا رب! ہم میں سے کوئی ان جیسا نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے اندر بنی آدم جیسی شہوت پیدا کرکے زمین میں اتار دیا گیا اور ان (کی آزمائش) کے لیے  ایک عورت کی صورت میں زہرہ نامی خاتون تیار کی گئی، چنانچہ جب انہوں نے عورت کو دیکھا تو اس بات پر قابو نہ رکھ سکے کہ اس سے کچھ فائدہ حاصل کریں جسے اللہ بہتر جانتا ہے۔ اور شہوت ان کی کانوں اور آنکھوں تک چھا گئی۔ پھر جب انہوں نے آسمان کی طرف اُڑان بھرنی چاہی تو اس پر قادر نہیں تھے۔ پھر ان کے پاس ایک فرشتہ نے آکر یہ کہا کہ تم لوگوں نے جو کیا سو کیا، اب دنیا و آخرت کے عذاب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلو۔ چنانچہ ایک فرشتہ نے دوسرے فرشتہ سے پوچھا، تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میری رائے کے مطابق دنیا میں عذاب دے کر دوبارہ عذاب دینے سے بہتر ہے کہ مجھے آخرت میں ایک ہی مرتبہ عذاب دے دیا جائے، چنانچہ وہ دونوں زنجیروں میں جکڑ کر لٹکا دیے گئے ہیں، اور انہیں آزمائش بنا دیا گیا ہے۔

مذکورہ روایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے چار طریقوں سے یہ روایت منقول ہے:

1. حضرت مجاہد کے طریق سے، اور اس کے بھی تین طُرُق ہیں:

1. حضرت عوام بن حوشب کے طریق سے، جس کو سنن سعید بن منصور نے روایت کیا ہے۔

2. حضرت منہال بن عمرو کے طریق سے

3. حضرت يونس بن خباب کے طریق سے

ان دو طریق کو ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں، پھر ان سے حافظ ابن کثیر نے یہ روایت نقل کی ہے،

2. حضرت سعید بن جبیر کے طریق سے، اس طریق میں وہی روایت مذکور ہے جو حضرت مجاہد سے مروی ہے، البتہ الفاظ میں کچھ اختلاف ہے، اور حضرت مجاہد کی روایت میں واقعہ کا پورا ذکر ہے۔

یہ روایت مستدرکِ حاکم میں مذکور ہے، اور علامہ حاکم نے اس کی اسناد کو شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔ نیز اس سند میں یحیٰ بن سلمہ اپنے والد سے روایت کر رہے ہیں جن کے بارے میں محدثین کی آراء درست نہیں ہے، اس لیے حاکم نے حکم بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یحیٰ بن سلمہ کی وہ روایات جو انہوں نے اپنے والد سے بطور تفرد نقل کی ہیں، ترک کردینا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ بھی قابلِ اعتبار محدث ہیں۔ البتہ امام ذہبی نے ان کی اس بات کو رد کرکے لکھا ہے کہ امام نسائی نے خود یحیٰ بن سلمہ راوی کو متروک اور امام ابو حاتم نے منکر الحدیث قرار دیا ہے۔

3. حضرت سالم بن عبد اللہ کے طریق سے، جس کو اِنہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور اُنہوں نے حضرت کعب سے روایت کیا ہے۔ یہ طریق امام طبری نے اپنی تفسیر میں، ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنَّف میں، ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں، بیہقی نے شعب الایمان میں ذکر کیا ہے۔

حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں یہ طریق نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ سابقہ دونوں طُرُق کے مقابلے میں یہ طریق سب سے زیادہ صحیح ہے۔ تاہم آخر میں یہ بھی کہا ہے کہ یہ سب روایات حضرت کعب احبار سے منقول ہیں جس کا مدار کتب بنی اسرائیل ہے۔

4. حضرت نافع کے طریق سے، جسے انہوں نے حضرت عمر سے روایت کیا ہے۔  یہ طریق امام احمد اور بزار نے اپنی اپنی مسانید میں، ابن حبان نے اپنی صحیح میں، بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ اور اس طریق میں موسی بن جبیر راوی کا واسطہ ہے جن پر محدثین نے مستور الحال اور غیر معروف ہونے کا حکم لگایا ہے، چنانچہ ابن ابی حاتم نے اپنے والد حاتم کی نسبت سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔ شیخ البانی نے اپنی کتاب سلسلة الأحاديث الضعيفة میں لکھا ہے کہ امام احمد بھی اس روایت کو منکَر قرار دیتے تھے۔

البتہ اس طریق کے مختلف توابع بھی ہیں، لیکن وہ سب نا قابلِ اعتبار ہیں؛ کیونکہ ایک تابع میں ہشام  بن علی بن ہشام سیرافی راوی ہے، لیکن محدثین  کے ہاں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ایک تابع ایسا ہے جس میں محمد بن یونس بن موسی الکدیمی راوی ہے جس پر حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت بنی اسرائیل کی ان حکایات میں سے ہے جسے انہوں نے گھڑ رکھا تھا، پھر وہاں سے حضرت کعب احبار نے نقل کیا اور ان سے سلف میں سے کچھ لوگوں نے یہ واقعہ سن کر آگے نقل کرنا شروع کردیا، لیکن اس واقعہ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

حوالہ جات
حاشية سنن سعيد بن منصور ل.د. سعد بن عبد الله بن عبد العزيز آل حميد (584/2):
"وقد روي الحديث عن ابن عمر من أربعة طرق:
(1) طريق مجاهد، وله عنه ثلاثة طرق:
(أ) - طريق العوام بن حوشب الذي أخرجه المصنف هنا.
(ب) و (جـ) - طريقا المنهال بن عمرو ويونس بن خباب، كلاهما عن مجاهد ... أخرجه ابن أبي حاتم في "تفسيره" (308/1-306،رقم1014)، وساقه عنه الحافظ ابن كثير في "تفسيره" (139/1)، وسياقه أصح فاخترته هنا...
(2) طريق سعيد بن جبير، عن ابن عمر، بنحو سياق مجاهد السابق مع الاختلاف في بعض الألفاظ، وسياق مجاهد أتم. أخرجه الحاكم في "المستدرك" (608/4-607) من طريق يحيى بن سلمة بن كهيل، عن أبيه، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر، به.
قال الحاكم: ((هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وترك حديث يحيى بن سلمة عن أبيه من المحالات التي يردها العقل، فإنه لا خلاف أنه من أهل الصنعة، فلا ينكر لأبيه أن يخصه بأحاديث يتفرد بها عنه)). فتعقبه الذهبي بقوله عن يحيى بن سلمة بن كهيل: ((قال النسائي: متروك، وقال أبو حاتم: منكر الحديث)). قلت: تقدم في الحديث [77] أن يحيى بن سلمة هذا متروك.
(3) طريق سالم بن عبد الله بن عمر، عن أبيه، عن كعب ... أخرجه عبد الرزاق في "تفسيره" (54/1-53) ... وأخرجه ابن أبي شيبة في "المصنف" (186/13،رقم16061). وابن أبي حاتم في "تفسيره" (306/1،رقم1013). والبيهقي في "شعب الإيمان" (442/1-441،رقم162). جميعهم من طريق سفيان الثوري، عن موسى بن عقبة، عن سالم، به، واللفظ لعبد الرزاق ...
وذكر الحافظ ابن كثير في "تفسيره" (138/1) الحديث من رواية موسى بن جبير ومعاوية بن صالح، كلاهما عن نافع، عن ابن عمر، به مرفوعا كما سيأتي، ثم ذكر الحديث من رواية سالم، ثم قال: ((فهذا - يعني طريق سالم - أصح وأثبت إلى عبد الله بن عمر من الإسنادين المتقدمين، وسالم أثبت في أبيه من مولاه نافع، فدار الحديث ورجع إلى نقل كعب الأحبار عن كتب بني إسرائيل، والله أعلم)). اهـ.
(4) طريق نافع، عن ابن عمر، أنه سمع النبي - صلى الله عليه وسلم - يقول … ، فذكره هكذا مرفوعا بنحو سياق المنهال بن عمرو ويونس بن خباب للحديث عن مجاهد، عن ابن عمر المتقدم بطوله، إلا أنه زاد فيه قتلهما للصبي، وشربهما للخمر، ولم يذكر مجيئها للنبي، وإنما فيه: فخيرا بين عذاب الدنيا والآخرة، فاختارا عذاب الدنيا.
أخرجه الإمام أحمد في "مسنده" (134/2)، والبزار في "مسنده" كما في "كشف الأستار" (358/3،رقم2938)، وعبد بن حميد في "مسنده" (ص:251-252،رقم787)، وابن أبي حاتم في "العلل" (69/2)، وابن حبان في "صحيحه" (22/8-23،رقم6153)، وابن السني في "عمل اليوم والليلة" (ص:177-178،رقم657)، والبيهقي في "شعب الإيمان" (439/1-437،رقم 160)، جميعهم من طريق زهير بن محمد، عن موسى بن جبير، عن نافع، به، إلا أن لفظ ابن أبي حاتم وابن السني مختصر. ونقل بن أبي حاتم عن أبيه أنه قال: ((هذا حديث منكر))...
وقد توبع موسى بن جبير على روايته عن نافع مرفوعا، لكنها متابعات لا يفرح بها.
فأخرجه ابن مردويه في "تفسيره" فقال: حدثنا دعلج بن أحمد، حدثنا هشام بن علي بن هشام، حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا سعيد بن سلمة، حدثنا موسى بن سرجس، عن نافع، عن ابن عمر، سمع النبي - صلى الله عليه وسلم - يقول … ، فذكره بطوله ... وفي سنده هشام بن علي بن هشام السيرافي ... ولم أجد من ترجم له... وقد خولف هشام بن علي في روايته للحديث عن عبد الله بن رجاء.
فأخرجه البيهقي في "شعب الإيمان" (1 /440-411،رقم161) من طريق محمد بن يونس بن موسى، حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا سعيد بن سلمة، عن موسى بن جبير، عن موسى بن عقبة، عن سالم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - … ، فذكره وبطوله ... قلت: الراوي عن عبد الله بن رجاء هو محمد بن يونس بن موسى الكديمي، وهو متهم بوضع الحديث."
اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة (ص:205):
"حديث ‌هاروت ‌وماروت وقصتها مع الزهرة أخرجه الإمام أحمد في مسنده وابن حبان في صحيحه من جهة موسى بن جبير عن نافع عن ابن عمر مرفوعا، وإسناده على شرط الشيخين إلا موسى بن جبير؛ فإنه روى عنه جماعة، وذكره ابن ابي حاتم في كتابه ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا، فهو مستور الحال، وقد تفرد به عن نافع مولى ابن عمر، وقد تابعه معاوية بن صالح فرواه عن نافع نحوه رواه ابن جرير في تفسيره."
مختصر تلخيص الذهبي (3575/7):
"حديث (ابن) عمر في قصة هاروت وماروت. قال: صحيح، (وترك حديث) يحيى بن سلمة بن كهيل من المحالات التي يردها العقل. قلت :قال النسائي: متروك، وقال أبو حاتم: منكر الحديث."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

05/محرم الحرام/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب