80823 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے والد مرحوم کا ایک گھر ہے جسے انھوں نے اپنی زندگی میں سن 2014 کو باقاعدہ قانونی ضابطے کے تحت بخوشی میری والدہ مرحومہ کے نام کردیا تھا ۔والد صاحب کا انتقال 2019 میں ہوا اور اسی کے ڈیڑھ سال بعد والدہ کا انتقال 2021 میں ہوا تھا۔ والدہ کے انتقال کے دو سال بعد 2023 میں ہم نے اس گھر کو فروخت کردیا، چونکہ یہ گھر والدہ کے نام تھا تو بطور والدہ کی اولاد ہونے کے تعلق سے ہم چار بہن بھائی مکمل طور پر یہ قانونی حق رکھتے ہیں۔ابھی گھر فروخت ہونے کے مراحل سے گزر ہی رہا تھا کہ ہمارے والد صاحب کی پہلی بیوی کے سات بچوں نے کیس کردیا کہ ہمیں حصہ دیا جائے، جبکہ گھر مکمل طور پر قانونی ضابطے کے مطابق ہمارا ہے، کیونکہ وہ گھر میری والدہ کی ملکیت تھا۔ والد صاحب نے پہلی بیوی کو 1971 میں ہی قانونی اور شرعی طلاق دے دی تھی۔ اب اس سلسلے میں ہمیں آپ سے راہنمائی چاہیے کہ اگر والد نے بخوشی قانونی ضابطے سے گھر اپنی بیوی کو دے دیا، بلکہ فروخت کردیا تھا کچھ رقم لکھوا کر اور وہ خود اس کی ملکیت سے دستبردار ہوچکے تھے اپنی حیات میں، تب بھی کیا ان کے پہلے بچوں کا حق بنتا ہے؟
وضاحت:سائل نے بتایا کہ والد نے گھر والدہ کو فروخت کیا تھا اور باقاعدہ کاغذات (sale deed ) تیار کروائی تھی، البتہ سب اسی گھر میں رہتے تھے تو باقاعدہ الگ سے قبضہ نہیں دیا گیا والدہ کو۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والد نے اپنا مکان جب والدہ کو فروخت کردیا تو اب وہ مکان والدہ کی ملکیت ہے، والد کے انتقال کے بعد آپ کے سوتیلے بہن بھائیوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہے اور ان کا دعویٰ بھی درست نہیں۔
حوالہ جات
الهداية شرح البداية (4/ 220)
والملك للمشتري قبل القبض في البيع البات.
عمر فاروق
دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی
۸/محرم الحرام/۱۴۴۴ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |