021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دم بعد الاسقاط کے بارے میں تحقیقی حکم
81047پاکی کے مسائلحیض،نفاس اور استحاضہ کا بیان

سوال

قدیم اور جدید فتاوٰی کے مابین اس حوالے سے اختلاف کیوں ہے؟مثلاً شامی میں ہے:

نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة--- ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة۔(شامی،۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ)

جبکہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء سے اس کے برعکس درج ذیل فتوی جاری ہواہے :

بچے کے اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا، لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے ضائع ہوجائے تو اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا۔۔۔الخ(فتوی نمبر : 143908200742* *دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ احسن الفتاوی(جلد1/71اورجلد 10/173)میں دم بعد الاسقاط کےنفاس ہونے یا نہ ہونے کا مدار  چار ماہ کی مدت کو قرار دیا گیا ہےاور اس کی بنیاد کتبِ فقہ کی وہ عبارات ہیں جن میں چار ماہ سےپہلے استبانہ تامہ کی نفی ہے،جبکہ احسن الفتاویٰ(10/173) ہی میں حاشیہ از مرتب کے تحت تحقیق کے بعد فتویٰ امداد الفتاویٰ(1/45) کے مطابق جاری کیا گیا ہے،جس میں نفاس کا مدار چار ماہ کی مدت کے بجائے استبانہ خلق کو قرار دیا ہے۔تسامح کی وجہ غالباًدر مختار کی  درج ذیل عبارت ہے:

الدر المختار للحصفكي (1/ 326)

(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما۔

لیکن تحقیق سے  معلوم ہوا کہ یہ بات درست نہیں،بلکہ اعضاء کی خلقت حمل ٹھہرنے کے 81 دن بعد شروع ہوجاتی ہے،البتہ نفخ روح چار مہینےکے بعد یعنی 120 دن گزرنے پر ہوتا ہے،نفاس اور انقضائے عدت کا مدار بعض اعضاء کے ظہور پر ہے نہ کہ نفخ روح پر۔(احسن الفتاویٰ:10/174)

دارالافتاء  جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے مذکورۃفتویٰ سے متعلق  انہیں کے دارالا افتاء سے رجوع کیا جائے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية(1/ 37)
والسقط إن ظهر بعض خلقه من أصبع أو ظفر أو شعر ولد فتصير به نفساء، هكذا في التبيين۔
لدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 302)
نقل بعضهم أنه اتفق العلماء على أن نفخ الروح لا يكون إلا بعد أربعة أشهر أي عقبها كما صرح به جماعة۔۔۔۔ ولا ينافي ذلك ظهور الخلق قبل ذلك؛ لأن نفخ الروح إنما يكون بعد الخلق۔

محمدمصطفیٰ رضا

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

8/محرم /1445ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مصطفیٰ رضا بن رضا خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے