021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کے ساتھ وطی فی الدبراوروطی فی الحیض کرنا اوراس کو بہن کہنا
80831جائز و ناجائزامور کا بیانعورت کو دیکھنے ، چھونے اورجماع کرنے کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

             اگرکوئی شخص اپنی بیوی سے حرام طریقے سے خواہش پوری کرے جبکہ اس کی بیوی اس پر راضی نہ ہو اوروہ حیض کے ایام میں بھی خواہش پوری کرے اوربیوی سے یہ کہے کہ"اگرایسا کروگی تو سہی وگرنہ بہن سہی" تو ایسی صورت میں حکم کیاہے اورعورت کو کیاکرناچاہیے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

     بیوی سے حرام طریقے سے خواہش پوری کرنا یعنی وطی فی الدبرکرنا انتہائی شنیع اور سخت  گناہ  ہے،اللہ تعالی ایسے شخص کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں فرماتے، اسی طرح حیض کی حالت میں بیوی سے وطی کرنا بھی حرام ہےاور بیوی کےلیےبھی اس شنیع فعل میں خاوند کی موافقت کرنا جائزنہیں ہے،لہذا وہ خاوندکونرمی سےسمجھائے اورفتوی دکھاکراس کو اللہ کا خوف دلائے اوراس طرح کے شنیع افعال سے اس کو منع کرے، تاہم اِس غیر انسانی حرکتوں کی وجہ سے زوجین میں مفارقت نہیں ہوتی ۔

           خاوند کےلیے ہرگز یہ جائزنہیں ہے کہ وہ ایک  غلط کام پر بیوی کو تیارکرنے کےلیے دباؤ ڈالے اوراس کو دھمکیاں دے ،وہ خدا کے عذاب سے ڈرے، توبہ کرے اوراس ناجائز حرکت سے فوراً باز آجائے،اوربیوی کوبہن بھی نہ کہے کیونکہ بیوی کو بہن کہنا مکروہ ہے،اوربعض خاص صورتوں میں اس سے طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔

حوالہ جات
قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ: {نِسَآئُ کُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنیّٰ شِئْتُمْ} [البقرۃ: ]
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا ینظر اللّٰہ إلی رجل أتی رجلا أو امرأۃ في الدبر۔ (سنن الترمذي ۲۷۲)
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ مَنْ اَتَی حَائِضًا اَوْ امْرَاَةً فِي دُبُرِهَا اَوْ کَاهِنًا فَصَدَّقَهُ فَقَدْ بَرِیَ مِمَّا اَنْزَلَ اﷲُ عَلَی مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ. مسنداحمد بن حنبل 2: 408، رقم: 9279، مصر: مؤسسه قرطبة،سنن ابي داؤد، 4: 15، رقم: 3904،سنن الترمذي، 1: 243، رقم: 135، دار احياء التراث العربي بيروت
وفی الدر المختار أیضا(۲۷/۴): ( أو ) بوطء ( دبر ) وقالا إن فعل في الأجانب حد وإن في عبده أو أمته أو زوجته فلا حد إجماعا بل يعزر .
(وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیضِ وَلَا تَقْرَبُوہُنَّ حَتَّی یَطْہُرْنَ فَإِذَا تَطَہَّرْنَ فَأْتُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللَّہُ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِینَ) (البقرة:222) (و) وطؤہا (یکفر مستحلہ) کما جزم بہ غیر واحد....(وقیل لا) .... وہو الصحیح خلاصة (وعلیہ المعول) ؛ لأنہ حرام لغیرہ ولما یجیء فی المرتد أنہ لا یفتی بتکفیر مسلم کان فی کفرہ خلاف، ولو روایة ضعیفة، ثم ہو کبیرة لو عامدا مختارا عالما بالحرمة لا جاہلا أو مکرہا أو ناسیا فتلزمہ التوبة؛ ویندب تصدقہ بدینار أو نصفہ. ومصرفہ کزکاة (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین) قولہ ویندب إلخ) لما رواہ أحمد وأبو داود والترمذی والنسائی عن ابن عباس مرفوعا فی الذی یأتی امرأتہ وہی حائض، قال: یتصدق بدینار أو نصف دینار ثم قیل إن کان الوطء فی أول الحیض فبدینار أو آخرہ فبنصفہ، وقیل بدینار لو الدم أسود وبنصفہ لو أصفر. قال فی البحر: ویدل لہ ما رواہ أبو داود والحاکم وصححہ إذا واقع الرجل أہلہ وہی حائض، إن کان دما أحمر فلیتصدق بدینار، وإن کان أصفر فلیتصدق بنصف دینار(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین 1/ 494،باب الحیض، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)
وفی الدرالمختارمع رد المحتار:
"(وإن نوى بأنت علي مثل أمي) أو كأمي، وكذا لو حذف "علي"، خانية ( براً أو ظهاراً أو طلاقاً صحت نيته ) ووقع ما نواه؛ لأنه كناية ( وإلا ) ينو شيئاً أو حذف الكاف، ويكره قوله: أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه".
 (قوله:حذف الكاف ) بأن قال: أنت أمي، ومن بعض الظن جعله من باب زيد أسد، در منتقى عن القهستاني، قلت: ويدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لابد من التصريح بالأداة، (قوله: لغا )؛ لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لا يحكم بشيء، فتح (قوله: ويكره الخ ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، والذي في الفتح: وفي أنت أمي لايكون مظاهراً، وينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ يا أخية استعارة بلاشك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه. (3 / 470 ط: سعید

 سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

08/محرم 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے