021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مورِث کی جائیداد میں کسی وارث کا دعویٰ ثابت ہونے کا شرعی طریقہ اور حکم
80827دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میری درخواست یہ ہے کہ میرے والد صاحب کے دو عدد مکان ہیں جن میں ایک لیز ہے اور دوسرا بغیر لیز ہے۔ ہم چار بھائی اور سات بہنیں ہیں۔ میرے دو بھائیوں کا کہنا ہے کہ یہ مکان ہمارے والد نے ہم کو دیا ہے، حالانکہ ان کے پاس نہ تو کوئی گواہ ہے اور نہ کوئی تحریری ثبوت۔ میرے بڑے بھائی کا کہنا ہے  کہ میرے والد: غلام نبی صاحب نے انتقال سے ایک دن پہلے مجھ سے یہ کہا تھا کہ اس مکان میں سب بہن، بھائیوں کا حصہ ہے۔ لیکن اس بات کا بھی ثبوت نہیں ہے۔ اس مسئلہ کا شرعی طور پر کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت: سائل نے بتایا ہے کہ والد صاحب نے دونوں بھائیوں کے لیے مکان کی نہ کوئی وصیت کی تھی اور نہ ہی تحفہ کے طور پر انہیں دیا تھا، نیز مکان کا قبضہ بھی والد صاحب کے پاس تھا، اور اس مکان کا کرایہ والد صاحب کے پاس جاتا تھا۔ نیز دعوے دار دونوں بھائیوں کا بھی وصیت اور ہبہ سے متعلق دعویٰ نہیں ہے، بلکہ ان کا یہ کہنا ہے کہ والد صاحب کو تین سے چار لاکھ روپے کی ضرورت تھی وہ ہم نے انہیں دیے تھے، اس کے بدلے میں والد صاحب نے اپنا مکان ہمیں دے دیا تھا، لیکن اس دعوے پر ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

نیز سائل کا کہنا ہے کہ مکان کی موجودہ ویلیو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق آپ کے دونوں بھائیوں کی طرف سے درجِ ذیل دو دعوے پائے جا رہے ہیں:

1. دونوں بھائیوں نے آپ کے والد صاحب کو تین سے چار لاکھ روپے دیے ہیں۔

2. والد صاحب نے اس رقم کے عوض میں انہیں اپنا مکان دے دیا تھا۔

پہلا دعویٰ اس وقت شرعاً معتبر ہوگا جب مدعیان (دعوے دار دونوں بھائی) بیِّنہ (دلیل) یا شرعی گواہان (دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں) کے ذریعے اپنا دعویٰ ثابت کردیں، اگر دعویٰ ثابت ہو جائے تو ان دونوں سے اس بات پر بھی قسم لی جائے گی کہ انہوں نے والد مرحوم کی زندگی میں وہ رقم واپس وصول نہیں کی تھی۔

اگر آپ کے دونوں بھائی اس بات پر بھی قسم اٹھا لیں کہ انہوں نے رقم والد صاحب سے وصول نہیں کی، تو یہ آپ کے والد صاحب کے ذمہ میں ثابت کردہ قرض ہوگا، اس لیے ان کی تجہیز و تکفین کا خرچہ اگر کسی نے احسان کے طور پر اپنی طرف سے ادا نہ کیا ہو تو ان کے ترکہ سے تجہیز و تکفین کا معتدل خرچہ نکالنے کے بعد وہ قرضہ ادا کیا جائے گا۔

اور اگر دونوں بھائی دعویٰ ثابت نہ کرسکیں، یا اس رقم کی وصولیابی نہ ہونے پر قسم اٹھانے سے انکار کردیں، تو ایسی صورت میں والد صاحب کے دیگر ورثاء کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی، نیز ورثاء یوں قسم اٹھائیں گے کہ اللہ کی قسم! ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ ہمارے والد مرحوم نے ان دونوں بھائیوں سے قرض لیا تھا۔ اس کے بعد ورثاء کی بات معتبر ہوگی اور آپ کے دونوں بھائیوں  کا دعویٰ قضاءً معتبر نہیں ہوگا۔

نیز آپ کے دونوں بھائیوں کا دوسرا دعویٰ درحقیقت قرض پر صلح کا دعویٰ ہے جو بیع کے حکم میں ہے، اس لیے یہ مستقل الگ دعویٰ کے حکم ہے، چنانچہ یہ دعویٰ بھی مذکورہ بالا طریقے کے مطابق بینہ یا گواہی کے ذریعہ ثابت ہوگا، اور دعویٰ ثابت ہوجانے کے بعد دونوں دعوے دار بھائی اس مکان کے مالک ہوں گے جو آپ کے والد مرحوم نے قرض کے بدلے میں انہیں دیا تھا، اس میں دوسرے ورثاء کا حصہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر یہ دعویٰ بینہ یا گواہی سے ثابت نہ ہوا تو دیگر ورثاء اس بات پر قسم اٹھائیں گے کہ ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ والد صاحب مرحوم نے اپنا مکان قرض کے بدلے میں دعوے دار دونوں بھائیوں کو دے دیا تھا، چنانچہ اس کے بعد ورثاء کی بات معتبر ہوگی۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (407/3):
"وإن لم تكن للمدعي بينة، وأراد استحلاف هذا الوارث، يستحلف على العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالى - بالله ما تعلم أن لهذا على أبيك هذا المال الذي ادعى، وهو ألف درهم، ولا شيء منه."
تكملة حاشية رد المحتار (58/2):
"مطلب: دعوى الوصية على الوارث كدعوى الدين إذا أنكرها، يحلف على العلم، ودعوى الوصية على الوارث كدعوى الدين، فيحلف على العلم لو أنكرها، ومدعي الدين على الميت إذا ادعى على واحد من الورثة وحلفه، فله أن يحلف الباقي، لأن الناس يتفاوتون في اليمين، وربما لا يعلم الأول به، ويعلم الثاني."
رد المحتار (490/21):
"قال في البحر من الدعوى: ولا خصوصية للدين، بل في كل موضع يدعي حقا في التركة، وأثبته بالبينة."
البحر الرائق (203/7):
"وأجمعوا على أن من ادعى دينا على الميت، يحلفه القاضي بلا طلب الوصي والوارث: بالله ما استوفيت من المديون، ولا من أحد أداه إليك عنه، ولا قبضه لك قابض بأمرك، ولا أبرأته منه ولا شيئا منه، ولا أحلت بشيء من ذلك أحدا، ولا عندك به ولا بشيء منه رهن."
تنقيح الفتاوى الحامدية (470/3):
"(سئل) في رجل: استقرض من آخر مبلغا من الدراهم وتصرف بها، ثم غلا سعرها، فهل عليه رد مثلها؟ (الجواب): نعم، ولا ينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها، كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمدا من مجمع الفتاوى."
الفتاوى الهندية (204/3):
"إذا قضى الدين أجود مما عليه ... إن قبل جاز، كما لو أعطاه خلاف الجنس، وهو الصحيح."
الفتاوى الهندية (232/4):
"رجل له على رجل ألف درهم لا يعلم وزنها، فصالح منها على ثوب أو عرض بعينه، جاز."
الفتاوى الهندية (232/4):
"وإذا وقع الصلح من الدراهم التي في الذمة على كر حنطة بعينها وتفرقا قبل أن يقبض الكر، جاز."
المجلة (ص:303):
"إذا تم الصلح فليس لواحد من الطرفين فقط الرجوع، ويملك المدعي بالصلح بدله، ولا يبقى له حق في الدعوى، وليس للمدعى عليه أيضا استرداد بدل الصلح منه."
الموسوعة الفقهية الكويتية (355/27):
"قالوا: إذا تم الصلح على الوجه المطلوب دخل بدل الصلح في ملك المدعي، وسقطت دعواه المصالح عنها، فلا يقبل منه الإدعاء بها ثانيا، ولا يملك المدعى عليه استرداد بدل الصلح الذي دفعه للمدعي ... وأصل ذلك: أن الصلح من العقود اللازمة، فلذلك لا يملك أحد العاقدين فسخه أو الرجوع عنه بعد تمامه. أما إذا لم يتم، فلا حكم له ولا أثر يترتب عليه."
بدائع الصنائع (225/6):
"وأما حجة المدعي والمدعى عليه  فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه؛ لقوله - عليه الصلاة والسلام -: البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه. جعل عليه الصلاة والسلام البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه، والمعقول كذلك؛ لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره، وللبينة قوة الإظهار؛ لأنها كلام من ليس بخصم فجعلت حجة المدعي، واليمين وإن كانت مؤكدة بذكر اسم الله - عز وجل -، لكنها كلام الخصم، فلا تصلح حجة مظهرة للحق وتصلح حجة المدعي عليه؛ لأنه متمسك بالظاهر، وهو ظاهر اليد، فحاجته إلى استمرار حكم الظاهر، واليمين وإن كانت كلام الخصم فهي كاف للاستمرار، فكان جعل البينة حجة المدعي وجعل اليمين حجة المدعى عليه وضع الشيء في موضعه، وهو حد الحكمة."
الدر المختار (553/5):
"(كذا [يحلف خصمه على العلم] إذا ادعى دينا أو عينا على وارث إذا علم القاضي كونه ميراثا أو أقر به المدعي أو برهن الخصم عليه) فيحلف على العلم (ولو ادعى عما) أي الدين والعين (الوارث) على غيره (يحلف) المدعى عليه (على البتات) كموهوب وشراء."
رد المحتار (479/22):
"(قوله: كونه ميراثا) أي كون المورث مات وتركه. (قوله: أو برهن الخصم) وهو المدعى عليه. (قوله: فيحلف) أي الوارث. (قوله: على العلم) أي: وإلا بأن لم يعلم القاضي حقيقة الحال ولا إقرار المدعي بذلك ولا أقام المدعى عليه بينة، يحلف على البتات: بالله ما عليك تسليم هذه إلى المدعي. (قوله: كموهوب) يعني: لو وهب رجل لرجل عبدا فقبضه، أو اشترى رجل من رجل عبدا، فجاء رجل وزعم أن العبد عبده، ولا بينة له، فأراد استحلاف المدعى عليه، يحلف على البتات."
البحر الرائق (217/7):
"قوله: (وعلى العلم لو ورث عبدا فادعاه آخر)؛ لأنه لا علم له بما صنع المورث فلا يحلف على البتات. أطلقه فشمل ما إذا ادعاه ملكا مطلقا أو بسبب من المورث."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

11/محرم الحرام/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے