021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع کا حکم(عدالت میں دو گواہوں کے ذریعے شوہر کا تشدد ثابت کرنے پر عدالتی خلع کا حکم)
80819طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

کورٹ کی اس یکطرفہ ڈگری سے طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ شادی کے فوراً بعد سے بہنوئی نے بہن پر تشدد شروع کردیا تھا، بارہا سمجھایا بہن کے سسر کو بھی اس معاملے میں شامل کیا اور وہ بہن کو واپس گھر لے کر گئے تو اس کے شوہر نے گھر سے نکال دیا۔ آخر میں بہن کو دھمکی دی کہ نشے کی دوائی دے کر قتل کردوں گا، پھر ہمارے سمجھانے کے بعد بھی یہی بات کہی کہ اس کو یہاں سے لے جاؤ میں اس کو گھر سے نکال دوں گا یا مار دوں گا۔ اس کے بعد بھی بہنوئی کو کئی مرتبہ بلایا کہ یہ معاملہ ختم کرو آکر، جب وہ نہیں آیا تو مجبوراً عدالت جانا پڑا۔

عدالت میں بطور گواہ کے سائل(امام علی) اور ان کے پھوپھی زاد بھائی (محمد ہاشم) پیش ہوئے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت میں طلاق کااختیارشوہرکے پاس ہے اور اگر عورت جدائی اختیارکرناچاہےتوباہمی رضامندی سےخلع کی صورت میں اختیارکرسکتی ہے۔البتہ اگرشوہرنہ توطلاق دیتاہواورنہ ہی خلع پرراضی ہو، توبعض اعذار کی صورت میں شریعت عورت کواختیاردیتی ہےکہ قاضی سےرجوع کرکےنکاح فسخ کروالےلیکن اس کےلئےضروری ہےکہ فسخ نکاح کےشرعی اصولوں کالحاظ کرتےہوئےنکاح کےفسخ ہونےکافیصلہ کیاگیاہو۔

آپ نے عدالت میں دو گواہوں کے ذریعے سے بہنوئی کا تشدد ثابت کردیا ہے، لہٰذا عدالت کی فسخ نکاح کی ڈگری سے آپ کی بہن کو طلاق ہوگئی اور وہ عدت گزارنے کے بعد کہیں اور نکاح کرسکتی ہیں۔

حوالہ جات
أحكام الأحوال الشخصية في الشريعة الإسلامية (ص: 165)
وأما القاضي فلا يطلق الزوجة بناء على طلبها إلا في خمس حالات: التطليق لعدم الإنفاق، والتطليق للعيب و التطليق للضرر، والتطليق لغيبة الزوج بلا عذر، والتطليق لحبسه.
حاشية ابن عابدين (3/ 498)
قوله ( من القاضي إن أبى طلاقها ) أي إن أبى الزوج لأنه وجب عليه التسريح بالإحسان حين عجز عن الإمساك بالمعروف فإذا امتنع كان ظالما فناب عنه وأضيف فعله إليه.
المبسوط للسرخسي (6/ 173)
(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 439)
الخلع (هو) لغة الإزالة، وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح المتوقفة على قبولها بلفظ الخلع أو ما في معناه).وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.
 
کفایۃ المفتی میں مفتی کفایت اللہ صاحب نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے:
"اگر شوہر کے مظالم ناقابل برداشت ہوں اور وہ طلاق بھی نہ دےاور عورت کی عصمت خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو عورت  کسی مسلمان حاکم کی عدالت سے اپنا نکاح فسخ کراسکتی ہے اور بعد حصول فسخ و انقضائے عدت دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔"(ج:۶، ص:۱۵۲جواب نمبر ۱۵۵، ط: دار الاشاعت)

عمر فاروق

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

۸/محرم الحرام/۱۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عمرفاروق بن فرقان احمد آفاق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے