021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
معذور بچیوں کا نان ونفقہ کس کے ذمہ ہو گا؟
80844میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

بچیوں کے دادا کی ابھی تک وراثت تقسیم نہیں ہوئی، جبکہ وہ نان ونفقہ کی محتاج ہیں، ایسی صورت میں اگر ان بچیوں کے پاس اپنا مال نہ ہو تو ان کا نان ونفقہ کس کے ذمہ واجب ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وراثت کی تقسیم شرعی حق ہے، بغیر کسی شرعی وجہ کے تقسیمِ وراثت میں تاخیر کرنا شرعا درست نہیں، نیز جب کسی شخص کااپنا مال موجود ہو تو اس وقت تک اس کا خرچ اپنے مال میں ہی واجب ہوتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں بچیوں کے دادا کی وراثت فوری طور پر تقسیم کی جائے اور پھر جماعت المسلمین کے ذریعہ کسی کو ولی مقرر کر کے بچیوں کا مال ان پرخرچ ، تاکہ وہ بچیوں کی ضروریات میں ان کا مال خرچ کیا جائے۔

جب بچیوں کے پاس اپنا مال ختم ہو جائے تو پھر وراثت کے حساب سے ان خرچ ان کے ورثاء پر لازم ہو گا،  لہذا بچیوں کا مال ختم ہونے کے بعد ان کے ورثاء کی تفصیل ذکر کرکے دوبارہ سوال پوچھ سکتے ہیں۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 293) دارإحياء التراث العربي ، بيروت:
وتجب نفقة الابنة البالغة والابن الزمن على أبويه أثلاثا على الأب الثلثان وعلى الأم الثلث " لأن الميراث لهما على هذا المقدار قال العبد الضعيف هذا الذي ذكره رواية الخصاف والحسن رحمه الله وفي ظاهر الرواية كل النفقة على الأب لقوله تعالى: {وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ} [البقرة: 233] وصار كالولد الصغير ووجه الفرق على الرواية الأولى أنه اجتمعت للأب في الصغير ولاية ومؤنة حتى وجبت عليه صدقة فطره فاختص بنفقته ولا كذلك الكبير لانعدام الولاية فيه فتشاركه الأم وفي غير الوالد يعتبر قدر الميراث حتى تكون نفقة الصغير على الأم والجد أثلاثا ونفقة الأخ المعسر على الأخوات المتفرقات الموسرات أخماسا على قدر الميراث.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

11/محرم الحرام1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے