021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ملکیتی زمین کے قریب موجود خالی زمین کے فروخت کاحکم
80847خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

 ایک شخص کاایک جگہ کھیت ہے اوراس کے سامنے کچھ خالی زمین ہے اورہمارا عرف یہ ہے کہ جس کا کھیت ہوتاہےاس کے سامنےکی بنجرزمین اس کی ہوتی ہے، تقریباًہرکھیت والے کی زمین کےسامنےاس طرح کی خالی زمین ہوتی ہے اورمیرے کھیت کے سامنےبھی ایک زمین ہےجس کو اشرف غنی کے دورحکومت میں ایک  دوسرے شخص نے بغیرمجھ سے پوچھے فروخت کردیاہے، اب تو الحمد للہ اسلامی حکومت ہے لوگ اس طرح کے کام نہیں کرتے۔

اب مجھے پوچھنایہ ہے کہ

کیا شریعت میں ہم اس زمین کو لے سکتے ہیں یا نہیں؟ اگرلے سکتے  ہیں تو کس سے لے سکتے ہیں بائع سے یامشتری سے ؟بیّنوا توجروا ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ  زمین سے اگربالفعل لوگوں کا مفاد عام  وابستہ نہیں تو پھر یہ شرعا "ارضِ موات" کے حکم میں ہے جو حکومتی اجازت کے ساتھ آباد کرنے سے پہلے کسی بھی شخص کی ذاتی ملکیت میں نہیں ہوتی، نہ بائع کی، نہ مشتری کی  اورنہ کسی اورکی،لہذا مذکورہ غیرآباد زمین حکومتی  عمل داری میں آتی ہے اور وہی اس کی واپسی کی ذمہ دارہےاورمطالبہ کرسکتی ہے، کوئی اورشخص اس میں دعوے کا حقدارنہیں۔

حوالہ جات
وفی المجلة الأحکام العدلیة، الفصل الخامس فی إحیاء الموات (ص: 244)
مادة 1270: الأراضي الموات هي الأراضي التي ليست ملكا  لأحد، ولا هي مرعى ولا محتطبالقصبة أو قرية، وهي بعيدة عن أقصى العمران، يعني أن جهير الصوت لو صاح من أقصى الدور التي في طرف تلك القصبة أو القرية لا يسمع منها صوته.
 مادة 1271: الأراضي القريبة من العمران تترك للأهالي مرعى ومحتصدا ومحتطبا،  ويقال لها "الأراضي المتروكة".  
الارض الموات ھی ٲرض خارج البلد لم تکن ملکا لأحد ولا حقا لہ خاصاً(بدائع الصنائع  کتاب الأراضی ،ج 8،ص283)
إذا أحیا  شخص أرضا من الأراضی الموات  بإذن السلطان صار مالکا لھا ۔۔۔لہ  ان الأرض مغنومۃ  لاستیلاء المسلمین علیھا فلم یکن لأحد ان یختص بھا بدون إذن الإمام کسائر المغانم  ۔۔۔قال
فی ردالمحتار وقول الامام ھو المختار  ۔۔۔وبہ اخذ الطحاوی وعلیہ المتون  (ج 27 / ص 125)
المبسوط للسرخسي - (ج 23 / ص 297)
لأن بالتحجير لم تصر مملوكة للأول فسبب الملك هو الإحياء دون التحجير.
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (ج 8 / ص 232)
 التحجير ليس بإحياء في الصحيح لأن الإحياء جعلها صالحة للزراعة والتحجير للإعلام بوضع الأحجار حولها أنه قصد إحياءها لكونه من الحجر بالحركة وقيل اشتقاقه من الحجر بالسكون هو المنع لأن من أعلم في قطعة أرض من الموات علامة بوضع الأحجار أو الشوك في أطرافها أو بإحراق ما فيها من الشوك وغيره فكأنه يمنع الغير فسمي فعله تحجيرا ولا يفيد الملك فبقيت مباحة على حالها لكنه هو أولى بها وإنما قدر بثلاث سنين لقول عمر رضي الله تعالى عنه ليس لمتحجر بعد ثلاث سنين حق وهذا من طريق الديانة فأما إذا أحياها غيره قبل مضي هذه المدة ملكها لتحقق الإحياء منه دون الأول ونظيره الاستيام وحفر المعدن وإن حفر بها بئرا فهو تحجير وليس بإحياء وكذا إذا جعل الشوك حولها ولو كربها أو ضرب عليها المسناة أو شق لها نهرا فهو إحياء كما في التبيين .
قال الشیخ المفتی محمد تقی العثمانی :
گاؤں کے متصل اتنی زمین جو گاؤں والوں کی مشترکہ ضرورتوں، مثلا چراگاہ یا ایندھن کے حصول وغیرہ کے لیے ضروری ہو، وہ کسی شخص کی ملکیت نہیں ہوسکتی، نہ اس میں نو توڑ کر کے کسی کے لیے اس کا مالک بننا جائز ہے، اس کے بجائے یہ زمین پورے گاؤں کی مشترکہ زمین ہوگی، جس میں تمام باشندوں کا مساوی حق ہوگا۔ اس قسم کے رقبۂ زمین کی حد بندی حکومت بھی کرسکتی ہے، اور گاؤں والے باہمی رضامندی سے بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس محدود رقبۂ زمین کے علاوہ شاملات کی جتنی غیر آباد زمینیں ہیں، ان میں گاؤں کے تمام باشندوں کا حق ہے، اور گاؤں کے تمام باشندے خواہ زمین دار ہوں یا کاشت کار، ان زمینوں میں نو توڑ کا حق رکھتے ہیں۔ اس حق کے استعمال کو منظم بنانے کے لیے حکومت قواعد بناسکتی ہے، اور یہ شرط بھی عائد کرسکتی ہے کہ نو توڑ کے لیے حکومت سے اجازت لینی ضروری ہوگی  (بشرطیکہ اجازت لینے کا عمل اتنا دشوار نہ ہو کہ عوام کے لیے اجازت کا حصول بہت مشکل ہوجائے، اور صرف با اثر لوگ ہی اجازت سے فائدہ اٹھا سکیں)،  لیکن ان قواعد کے مطابق جو شخص بھی ان اراضی میں نو توڑ کرلے گا، وہ اتنی زمین کا مالک قرار پائے گا جو اس نے آباد کرلی ہو، اور اس میں کاشت کرنے کے بعد مالکانِ دیہہ یا گاؤں کے کسی اور زمین دار کو کسی قسم کا لگان، کرایہ یا بٹائی دینے کا پابند نہیں ہوگا، خواہ وہ نو توڑ کرنے والا گاؤں کا کوئی زمین دار ہو، یا کاشت کار(عدالتی فیصلے:2/282-266)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

   دارالافتاء جامعۃ الرشید

    11/1/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے