021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوبیٹوں کو مشترک طور پر ہبہ کی گئی زمین کا حکم
80988ہبہ اور صدقہ کے مسائلکئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان

سوال

والدصاحب نے اپنی زندگی میں بڑے بیٹے کو تیس ہزارفٹ زمین دی تھی،دوسرے اورتیسرے نمبر بیٹے کومشترکہ طور 46 ہزار فٹ زمین  دی تھی،جس کو کچھ عرصہ بعدوالدصاحب کی حیات میں ان دوبھائیوں نے خود آپس میں تقسیم کیا،جبکہ چوتھے نمبر بیٹےکو10ہزارفٹ زمین دی تھی،اس بیٹے کے والد صاحب سے دیگربھائیوں کے برابر حصے کے مطالبہ پروالدصاحب جواب میں کہتے:ابھی صبرکرو، میں آپ کوپوراحصہ دوں گا،اس دوران والدصاحب کاانتقال ہوا۔

واضح رہے کہ دوسرے اور تیسرے نمبر  کے بیٹے کو والد نے قبضہ دیاتھا اوروالد بڑے بیٹے کے ساتھ گھرمیں سکونت پذیر تھا،تمام کاروبار بڑا بیٹا سرانجام دیتاتھا۔

پوچھنا یہ ہےکہ دوسرے اور تیسرے نمبرکےبیٹے کومشترکہ طور46ہزار فٹ زمین کاہبہ صحیح ہے یانہیں؟

اورچوتھے نمبربیٹےکوپوراحصہ دینے کا وعدہ پوراکیے جانے سے پہلے انتقال کی صورت میں اب بطریق میراث تقسیم کامطالبہ کرسکتاہے یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں اپنی جائیداد میں سے اولاد کو کچھ دینا ہبہ کہلاتا ہے اور شرعا ہبہ کی درستگی اور تکمیل کے لئے ہبہ کی جانے والی چیز کو باقاعدہ تقسیم کرکے اس کے حوالے کرنا ضروری جسے چیز ہبہ کی جارہی ہے،بشرطیکہ وہ تقسیم کے قابل ہو،اس کے بغیر راجح قول کے مطابق ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔

چونکہ مذکورہ صورت میں دوسرے اور تیسرے نمبر کے بیٹوں کو والد نے 46 فٹ زمین مشترکہ طور دی تھی،باقاعدہ تقسیم کرکے قبضے میں نہیں دی تھی اور نہ ان میں سے کسی کو اس زمین کو آپس میں تقسیم کرنے کا وکیل بنایا تھا،اس لئے اس زمین کا ہبہ مکمل نہیں ہوا،جس کی وجہ سے وہ زمین والد کی وفات تک بدستور ان کی ملکیت میں رہی اور ان کی وفات کے بعد اب ان کے ترکہ میں شامل ہوکر ورثا میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی،جبکہ اس کے علاوہ  بڑے بیٹے کو دی گئی تیس ہزار فٹ کی زمین اور چھوٹے بیٹے کو دی گئی دس ہزار فٹ زمین اگر ان کے قبضے میں بھی دے دی گئی تھی تو وہ ان کی ملکیت بن گئی ہے جو اب ترکہ میں شامل نہیں ہوگی،لیکن اگر بڑے اور چوتھے نمبر کے بیٹوں کو مذکورہ زمین کا صرف زبانی کلامی ہبہ کیا گیا ہو،قبضہ نہیں دیا گیا ہو تو پھر ہبہ تام نہ ہونے کی وجہ سے وہ زمین بھی ترکہ میں شامل ہوکر میراث میں تقسیم ہوگی۔

حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 697):
(وهب اثنان دارا لواحد صح) لعدم الشيوع (وبقلبه) لكبيرين (لا) عنده للشيوع فيما يحتمل القسمة أما ما لا يحتمله كالبيت فيصح اتفاقا
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" (6/ 121):
"ولو وهب شيئا ينقسم من رجلين كالدار والدراهم والدنانير ونحوها وقبضاه لم يجز عند أبي حنيفة.....
 (وجه) قول أبي حنيفة – رحمهﷲ - أن هذا تمليك مضاف إلى الشائع فلا يجوز كما إذا ملك نصف الدار من أحدهما والنصف من الآخر بعقد على حدة والدليل على أن هذا تمليك مضاف إلى الشائع أن قوله وهبت هذه الدار منكما إما أن يكون تمليك كل الدار الواحدة من كل واحد منهما وإما أن يكون تمليك النصف من أحدهما والنصف من الآخر لا سبيل إلى الأول لأن الدار الواحدة يستحيل أن تكون مملوكة لكل واحد منهما على الكمال والمحال لا يكون موجب العقد فتعين الثاني وهو أن يكون تمليك النصف من أحدهما والنصف من الآخر لهذا لم يملك كل واحد منهما التصرف في كل الدار بل في نصفها ولو كان كل الدار مملوكا لكل واحد منهما لملك وكذا كل واحد منهما يملك مطالبة صاحبه بالتهايؤ أو بالقسمة وهذا آية ثبوت الملك له في النصف وإذا كان هذا تمليك الدار لهما على التناصف كان تمليكا مضافا إلى الشائع كأنه أفرد لكل واحد منهما العقد في النصف والشيوع يؤثر في القبض الممكن من التصرف على ما مر".
"رد المحتار" (5/ 692):
"(قوله: فإن قسمه) أي الواهب بنفسه، أو نائبه، أو أمر الموهوب له بأن يقسم مع شريكه كل ذلك تتم به الهبة كما هو ظاهر لمن عنده أدنى فقه تأمل، رملي".
"الترجیح والتصحیح لابن قطلوبٕغا" (6/ 121):
"ان وھب من اثنین واحد لم یصح عند ابی حنیفة رحمہ اللہ وقال ابویوسف و محمد رحمھما اللہ یصح وقداتفقوا علی ترجیح دلیل الامام".
"الفقه الحنفي وادلته للصاغرجي" (6/ 121):
"ان وھب واحد لاثنین دارا لم یصح عند ابی حنیفة رحمہ اللہ؛لانہا ھبة نصف الدار الی کل واحد منھما فیلزم الشیوع .....
وقال ابویوسف ومحمد رحمھما اللہ ان وھب واحد لاثنین دارا صح؛ لانھا ھبة الجملة لھما والتملیک واحد فلایتحقق الشیوع ورجح قول الامام".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

11/محرم 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے