021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میکے سے روکنا
80842جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میں شادی شدہ ہوں۔ ہمارے شادی کو دس مہینے ہوئے ہیں ۔  میرے سسرال والے مزاری عقائد کے ماننے والے ہیں ، ان کا مزاروں میں مستقل آنا جانا رہتا ہے ۔ مزید یہ کہ ایک مزاری شحص کا جو ان کا رشتہ دار بھی نہیں ہے،مستقل آنا جانا رہتا ہے ان کے گھر ۔ جس کے سامنے میری سالیاں اور میری ساس اپنے شوہر سمیت یعنی ان کی موجودگی میں بے پردہ ہو کر بیٹھتی ہیں اور آپس میں گپ شپ لگا رہتے ہیں ۔ شادی کے بعد ہم دونوں میاں بیوی میرے اپنے والدین کے گھر خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے ۔ تین چار ہفتے گزرے کر میرے سسرال والوں نے میری بیوی کو اکسانا شروع کر دیا اور پھر الگ گھر کا مطالبہ کر دیا ۔ میں نے اپنے تعلقات بہتر رکھنے کی خاطر کرایہ کے مکان میں رہنے کا فیصلہ کیا اور ہم کرایہ کے مکان میں آکر رہنے لگے ۔ میرے سسرال والوں کا میری بیوی کے سا تھ اور میری بیوی کا ان کے ساتھ تعلق انتہائی مضبوط تھا اور ابھی بھی ہے ۔ میری بیوی ان لوگوں کی ہر ایک بات مانتی ہے ، اس کی ماں اور بہنوں کی کہی ہوئی باتیں پتھر کی لکیر ہوتی ہیں ، اس کے لئے اس کے ماں باپ ہی سب کچھ ہیں اور انہی کے مشورہ پر چلتی ہے ، اس کے سامنے میری باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔ سات آٹھ مہینے ایسے ہی چلتا رہا ۔میں صبح سے رات تک روزگار کے لئے نکلتا اور میری بیوی میکے میں رہتی تھی اور رات واپس آجاتی تھی ۔ وہ نا محرم شخص میرے سسرال کے یہاں ہوتا تھا، مجھ سے رہا نہ گیا ،بالآخر ہم میاں بیوی کے درمیان ناچاقیاں انتہائی  بڑھ گئیں اور نفرتیں پیدا ہو گئیں ۔ پھر ایک دن میں اپنی بیوی کو لے کر میرے اپنے ماں باپ کے گھر مستقل سکونت کے ارادہ سے آگیا۔پانچ چھ دن کے بعد ( گزشتہ مہینے ۲۶ رمضان المبارک ) کو مجھے اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا کیا اور ۲۸ رمضان المبارک ، رات کے وقت میرے ماں باپ کے گھر ہی میں میرے سسرال والوں کے ساتھ میری شدید منہ ماری اور تلخ کلامی ہوئی ۔ میرے بیوی ہر بات میں ان کی طرف داری کر رہی تھی تو میں نے اسے اختیار دیدیا "کہ تم اپنا گھر جاسکتی ہو جب اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو میرے پاس آ جانا" وہ اپنی مرضی سے اپنے باپ اور بہنوں کے ساتھ بچہ لےکر اپنے گھر چلی گئی ۔ میں نے 3 وجوہات کی وجہ سے 3 شرطیں ان کے سامنے رکھیں:- 1: جب سسرال میں سسر کے موجودگی میں بھی ان کی بچیاں بے پردہ اور بے حیائی والی زندگی اپنا رہی ہے اور انتہائی غلط عقائد میں ڈوبی ہوئی ہیں تو میں نے بیوی پر شرط لگائی کہ اگر تم میرے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے تو تمہیں مجھے اختیار کرنا ہوگا اور اپنے ماں باپ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہوگا ۔ تمہارے لیے تمہارے ماں باپ کے گھر کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ۔ 2: ہم دونوں کے درمیان ناچاقیاں اور نفرتوں کی وجہ چونکہ اس کی ماں اور بہنوں کا اس کے کان بھرنا ، ورغلانا اور غلط درس دینا ہے تو میں نے یہ شرط لگائی کہ تم اپنے گھر والوں سے بالکل لاتعلق رہوگی، نہ وہ تم سے ملنے آئیں گے اور نہ ہی تم ان سے ملنے جاؤگی ۔ 3: چونکہ تم نے اپنے ماں باپ کے گھر کو اختیار کیا لہٰذا میں نان نفقہ اور دوائی خرچہ نہیں دوں گا ۔ سوال یہ ہے کہ میں ان تین شرائط کی وجہ سے کہیں عند اللہ مستحقِ مواخذہ تو نہیں ہوں گا ؟ شوہر اپنی بیوی کو اپنی زندگی بنانے کے لیے، فساد کی صورت میں میکے جانے سے روک سکتا ہے یا نہیں ؟ روکنے کی مدت شوہر کے چاہنے پر ہے یا شریعت میں اس کی حد بندی ہے ؟ شوہر اگر بیوی کو میکے کے ساتھ تعلق کی اجازت نہ دے تو کیا بیوی پر شوہر کی بات ماننا لازم ہے یا نہیں ؟ لڑکی کے ماں باپ کو شریعت میں بیٹی سے ملاقات پر کتنا حق دیا ہے جبکہ شوہر ان کی ملاقات پر رضامند ہو ؟ اور دوسری صورت شوہر رضامند نہ ہو ؟ براہِ کرم بالتفصیل رہنمائی فرما دیجیئے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے تمہیدا چند چیزیں سمجھ لیں ،بیوی کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، ایسی خاتون کےبارےمیں حدیث میں وعید آئی ہے، حدیث شریف میں ہے کہ  ایک خاتون  نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ : شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : شوہر کا حق  اس پر یہ ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے نہ نکلے، اگر وہ ایسا کرے گی تو آسمان کے فرشتہ اور رحمت وعذاب کے فرشتہ  اس پر لعنت بھیجیں گے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔

            میاں بیوی کا رشتہ قانون سے زیادہ اخلاق سے چلتا اور پائیدار رہتاہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھروالوں (بیوی) کے ساتھ اچھا ہو، اور میں اپنے گھروالوں کے ساتھ تم سب سے زیادہ اچھا (سلوک کرنے والا) ہوں۔     

            صورتِ مسئولہ میں  بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر  گھر سےنکلنا اور اپنےمیکے جانا جائز نہیں، شوہر نے اگر دن یا وقت مقرر کیا ہو تو اپنے میکےمیں شوہر کے بتائے ہوئے دنوں سے زیادہ رکنا بھی جائز نہیں، اگر  اپنے شوہر کےبتائے ہوئے دنوں سے زیادہ دن شوہر  کی اجازت کے بغیر رکے گی تو  از روئے شرع نافرمان ہوگی اور شوہر کے ذمہ نفقہ بھی نہیں ہوگا،جب تک وہ نافرمانی چھوڑ کر شوہر کی اطاعت نہ کر لے۔ البتہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہفتے میں ایک مرتبہ بیوی کے والدین سے اور سال میں کم از کم ایک مرتبہ اس کے محارم سے اس کی ملاقات کی اجازت دے، خواہ خود لے جاکر ملاقات کرائے ،یا اپنی اجازت سے بیوی کو بھیج دے، یا بیوی کے والدین کو اپنے گھر ملاقات کا موقع دے۔

حوالہ جات
الفقہ الإسلامی و أدلتہ: (6851/9)
"حقوق الزوج :فليس للزوجة الخروج من المنزل ولو إلى الحج إلا بإذن زوجها، فله منعها من الخروج إلى المساجد وغيرها، لما روى ابن عمر رضي الله عنه قال: رأيت امرأة أتت إلى النبي صلّى الله عليه وسلم ، وقالت: يارسول الله ، ما حق الزوج على زوجته؟ قال: حقه عليها ألا تخرج من بيتها إلا بإذنه، فإن فعلت، لعنها الله وملائكة الرحمة، وملائكة الغضب حتى تتوب أو ترجع، قالت: يا رسول الله ، وإن كان لها ظالماً؟ قال: وإن كان لها ظالماً ولأن حق الزوج واجب، فلا يجوز تركه بما ليس بواجب".
ردالمحتار علی الدرالمختار(3/ 146):
"ولیس لها أن تخرج بلا إذنه أصلًا".
ردالمحتار علی الدرالمختار(3/ 575):
"لانفقة لأحد عشر ... وخارجة من بیته بغیر حق و هي الناشزة حتی تعود".

محمد فرحان

دار الافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

11/محرم الحرام/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فرحان بن محمد سلیم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے