021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد میں جگہ کی تنگی کے باعث نمازِ جمعہ کی جماعت ثانیہ کا حکم
80875نماز کا بیانامامت اور جماعت کے احکام

سوال

ہمارے ادارے میں ایک مسجد ہے، جس میں پچیس سو لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں، جبکہ بیس ہزار سے زائد افراد ادارے میں کام کرتے ہیں، جمعہ کی نماز میں سب افراد کا ایک جماعت میں نمازِجمعہ پڑھنا کثرتِ تعداد کی بناء پر ناممکن ہے، قریب میں کوئی دوسری مسجد بھی نہیں ہے اور متبادل کوئی مناسب جگہ بھی میسر نہیں ہے کہ جہاں جمعہ کی دوسری جماعت کرائی جاسکے تو کیا ان اعذار کی بنیاد پر جمعہ کی ایک سے زائد جماعت مسجد میں امام کی جگہ کی تبدیلی کے ساتھ کرائی جا سکتی ہیں؟

واضح رہے کہ چونکہ یہ مسجدایک حساس ایریا میں ہے،جہاں پر مسجد کی توسیع بھی فی الحال ممکن نہیں اور بظاہر دوسری مسجد بنانا بھی مشکل ہے، یہ بیس ہزار سے زائد  لوگ ادارہ کے ملازمین ہیں، ڈیوٹی کے دوران کسی دور جگہ پر جا کر جمعہ پڑھنا بھی ممکن نہیں، ایسی صورت میں ان کو کافی مشکلات کا سامنا ہو گا، کیونکہ بسیں وغیرہ بھی کافی دور کھڑی ہوتی ہیں تو اگر جماعت ثانیہ نہ کروائیں تو ان کے جمعہ چھوٹنے کا  کافی اندیشہ ہے، لہذا قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ عام نمازوں میں تین سو سے چار سو تک نمازی ہوتے ہیں، باقی ملازمین نے اپنی اپنی جگہوں پر مصلے بنائے ہوئے ہیں، وہ ان میں نماز پڑھ لیتے ہیں، البتہ جمعہ کی نماز میں زیادہ ہوتے ہیں، ماجس کے ساتھ ایک گراؤنڈ ہے، شروع میں اس میں شامیانے وغیرہ انتظام کیا گیا تھا، مگر لوگوں کے لیے گرمی میں وہاں جمعہ پڑھنا کافی مشقت کا باعث تھا، کیونکہ نیچے زمین بھی کافی گرم ہوتی ہے، اس لیے لوگ وہاں جمعہ پڑھنے پر رضامند نہیں تھے، اس لیے وہاں سے سلسلہ ختم کر دیا گیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ایسی  مسجد جس میں امام، مؤذن مقرر ہوں اور نمازی معلوم ہوں، نیز  جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں  اور وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہو تو ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان اور اقامت کے ساتھ  محلے والوں/ اہلِ مسجد  کے  جماعت کے ساتھ نماز ادا کرلینے کے بعد دوبارہ نماز کے لیے جماعت کرانا  مکروہ اور ناجائز ہے، دوسری جماعت  سے لوگوں کے دلوں سے پہلی جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہوجائے گی اور اس  سے پہلی جماعت کے افراد  بھی کم ہوجائیں گے۔ اس ليے حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق بغیر کسی عذر کے شہر یا دیہات میں واقع مسجد میں تکرارِ جماعت کی اجازت نہیں، اگرچہ دوسری جماعت  پہلی جگہ سے ہٹ کر جگہ کی تبدیلی کے ساتھ کروائی جائے۔

 لہذا صورتِ مسئولہ میں چونکہ مذکورہ مسجد کے امام، مؤذن اور نمازی سب متعین ہیں، اس لیے اس مسجد میں تکرارِ جمعہ کی اجازت نہیں ہے، بلکہ انتظامیہ کو چاہیے کہ اس مسجد کی توسیع کریں یا دوسری مسجد کا انتظام کریں اور اگر ان دونوں میں سے کوئی صورت ممکن نہ ہو تو صرف جمعہ کے دن کے لیے مسجد کے ساتھ گراؤنڈ میں موٹی چادر والے شامیانے وغیرہ لگانے اور نیچے موٹی چٹائیاں وغیرہ بچھانے کا انتظام کر لیا جائے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو چونکہ جمعہ کے لیے مسجد شرط نہیں ہے، بلکہ کسی بھی جگہ پر تین چار آدمی خطبہ پڑھ کر جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں، اس لیے مذکورہ ایریا میں جن جن جگہوں پر مصلے بنے ہوئے ہیں وہاں کے ملازمین کے لیے  خطبہ پڑھ کر اپناعلیحدہ نمازِ جمعہ ادا کر نا بھی جائز ہے، نیز ان مصلوں میں ایک مرتبہ جماعت کی نماز ادا کرنے کے بعد دوسری جماعت(خواہ جمعہ کی نماز ہو یا کوئی اور نماز) بھی بلاکراہت کروائی جا سکتی ہے، کیونکہ شرعاً مصلیٰ مسجد کے حکم میں نہیں ہوتا۔

حوالہ جات
الدر مع رد المحتار:1/ 552، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب  فی تکرار الجماعۃ فی المسجد، ط: ايچ ايم سعید:
"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن. "
 (قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) ... والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعا. اهـ". 
حاشية ابن عابدين (1/ 553) دار الفكر-بيروت:
قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احترازا عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعا. اهـ. ثم قال في الاستدلال على الإمام الشافعي النافي للكراهة ما نصه: ولنا «أنه - عليه الصلاة والسلام - كان خرج ليصلح بين قوم فعاد إلى المسجد وقد صلى أهل المسجد فرجع إلى منزله فجمع أهله وصلى»
ولو جاز ذلك لما اختار الصلاة في بيته على الجماعة في المسجد ولأن في الإطلاق هكذا تقليل الجماعة معنى، فإنهم لا يجتمعون إذا علموا أنهم لا تفوتهم.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1/ 396) دار الفكر، بيروت:
مطلب في كراهة تكرار الجماعة في المسجد: أقول وبالله التوفيق: ما قاله الإمام الحلواني مبني على ما كان في زمن السلف من صلاة الجماعة مرة واحدة وعدم تكرارها كما هو في زمنه - صلى الله عليه وسلم - وزمن الخلفاء بعده، وقد علمت أن تكرارها مكروه في ظاهر الرواية إلا في رواية عن الإمام ورواية عن أبي يوسف كما قدمناه قريبا، وسيأتي أن الراجح عند أهل المذهب وجوب الجماعة وأنه يأثم بتفويتها اتفاقا.
الفتاوى الهندية (1/ 83) دار الفكر، بيروت:
المسجد إذا كان له إمام معلوم وجماعة معلومة في محله فصلى أهله فيه بالجماعة لا يباح تكرارها فيه بأذان ثان أما إذا صلوا بغير أذان يباح إجماعا.
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 367) كتاب الصلوة ،باب الامامة، دار الكتاب الإسلامي، بيروت:
وفي المجتبى ويكره تكرارها في مسجد بأذان وإقامة وعن أبي يوسف إنما يكره تكرارها بقوم كثير أما إذا صلى واحد بواحد واثنين فلا بأس به وعنه لا بأس به مطلقا إذا صلى في غير مقام الإمام وعن محمد إنما يكره تكرارها على سبيل التداعي أما إذا كان خفية في زاوية المسجد لا بأس به۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

12/ محرم الحرام 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے