021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انگریزی زبان سیکھنے کاحکم
80846جائز و ناجائزامور کا بیانعورت کو دیکھنے ، چھونے اورجماع کرنے کے احکام

سوال

میں نے (F.s.c)  تک تعلیم مکمل کی ہے اورآگے (Bs.english) میں داخلہ لینے کا خواہشمندہوں، میراسوال یہ ہےکہ اس زبان کا سیکھنا،سکھانا اوراس سے کمانا کیسا ہے؟ کیونکہ یہ مغرب کی زبان ہے اورجب ہم یونیورسٹی میں اس زبان کو پڑھتے ہیں تو وہاں پر انگریزی زبان کی پوری تاریخ ،ثقافت ،عقائد،سماج،ادب پڑھائے جاتے ہیں اس سے طلباء کےلے عقائد پرتو کوئی اثرنہیں پڑھتالیکن بہرحال اس کا یاد کرنا اورلکھنا امتحانی تیاری کےلیے ضروری سمجھاجاتاہے ،برائے کرم رہنمائی فرمائیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

انگریزی سمیت کسی بھی زبان کا سیکھنا /سکھانا اوراس سے کمائی کرنا فی نفسہ ممنوع نہیں ہے، بلکہ اگر کسی زبان کے سیکھنے /سکھانے سے کوئی نیک غرض متعلق ہو تو اس کا سیکھنا /سکھانا موجبِ اجرو ثواب بھی ہے،نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے زيد بن ثابت رضي الله تعالي عنه کو حکم دیاتھا کہ وہ یہودیوں کی زبان سیکھ لے، انھوں نے یہودیوں کی زبان لکھنا سیکھ لی یہاں تک کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خطوط وہ لکھ کر یہودیوں کے پاس بھیجتےتھے اور یہودیوں کے خطوط جو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آتےتھےوہ ان کو پڑھ کر نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سنا تے تھے ۔(بخاری شریف مطبوعہ احمدی 1068/2)

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اکابر نے انگریزی سامراج کے تسلط کے زمانے میں انگریزی تعلیم کو  اس برےماحول کے اثر ات کی وجہ سے مخربِ عقائد اور مفسدِ اعمال میں سے شمار کیا تھامگراس کی ایک وجہ تھی  اوروہ یہ تھی کہ مستقل اس تعلیم کو حاصل کرنے والوں پر ماحول کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقوال، اعمال، افعال اور وضع قطع کو بالکل غیر قوموں کی طرح کرلیتے ہیں،حتی کہ ان کے عقائد تک مسخ ہوجاتے ہیں، اور اس کے علاوہ بہت سے مفاسد پائے جانے  کی وجہ سے اس سے منع کیا جاتاتھا، اب بھی جہاں کہیں یہ مفاسد پائے جائیں وہاں مسلمانوں کو اس سے منع کیا جائے گا،لیکن جہاں اس طرح کے مفاسد نہ وہاں حکم فی نفسہ جواز رہےگاا وراگرنیت بھی صحیح اوردین کی خدمت کی ہو تو موجبِ اجر بھی ہوگا۔

حضرت تھانوی رحمہ اللہ امداد الفتاوی میں ارشاد فرماتےہیں:

"انگریزی مثل اورزبانوں کے ایک مباح زبان ہے،مگر تین عوارض سے اس میں خرابی آجاتی ہے اول بعض علوم اس میں ایسے ہیں جو شریعت کے خلاف ہیں اور علم شریعت سے واقفیت ہوتی نہیں اس لئے عقائد خلاف ہوجاتے ہیں جس میں بعض عقائد قریب کفر بلکہ کفر ہیں ۔ دوسرے اگر ایسے علوم کی بھی نوبت نہ آئے تو اکثر صحبت بددینوں کی رہتی ہے، ان کی بد دینی کا اثر اس شخص پر آجاتاہے کبھی اعتقاداً جس کا حکم اُوپر معلوم ہو چکا کبھی عملاً جس سے نوبت فسق کی آجاتی ہے۔ تیسرے اگر صحبت بھی خراب نہ ہو یا وہ مؤثر نہ ہو تو کم از کم اتنا ضرور ہے کہ یہ نیت رہتی ہے کہ اس کو ذریعہ معاش بنا دیں گے خواہ طریقۂ معاش حلا ل ہو یا حرام۔ اور یہ مسئلہ عقلاً و نقلاً ثابت ہے کہ جو مباح، ذریعہ کسی حرام کا بن جائے وہ حرام ہو جاتا ہے،پھر ایسا عزم خود معاصی قلب سے ہے تو اس صورت میں فسق ظاہری کے ساتھ فسق باطنی بھی ہے، ان عوارضِ ثلاثہ کی وجہ سے گاہے کفر والحاد تک، گاہے فسق ظاہری تک، گاہے صرف فسق باطنی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اگر کوئی ان عوارض سے مبرّا ہو یعنی عقائد بھی خراب نہ ہوں جس کا آسان طریقہ بلکہ متعیّن طریقہ یہی ہے کہ علم دین حاصل کرکے یقین کے ساتھ اس کا اعتقاد رکھے اور اعمال بھی خراب نہ ہوں ، عزم بھی یہ رہے کہ اس سے وہی معاش حاصل کریں گے جو شرعاً جائز ہوگی۔ اور پھر اسی کے موافق عمل درآمد بھی کرے توایسے شخص کے لئے انگریزی مباح اور درست ہے"( امداد الفتاوی جدید ۔ جدید مطول حاشیہ شبیر احمد القاسمی جلد 12صفحہ نمبر: 327)

ایک اورجگہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ  لکھتےہیں :

"انگریزی ایسے ہی ہندی منجملہ لغات یعنی زبانوں کے ایک زبان ہے اورزبان فی نفسہ کوئی قبیح نہیں بلکہ نعم خداوندی میں سے ایک نعمت ہے۔ کما قال تعالیٰ ومن آیاتہ خلق السمٰوٰت والأرض واختلاف السنتکم والوانکم ان في ذلک لآیات للعالمین ۔الآیۃ(سورۃ الروم رقم الآیۃ:۲۲) اورخود رسولﷺنے فارسی میں کہ آپ کے زمانہ میں آتش پرستوں کی زبان تھی تکلم فرمایا ابوہریرہؓ سے پوچھا۔ أشکمت درد الیٰ اٰخر الحدیث رواہ ابن ماجہ" البتہ کبھی بعض عوارض کی وجہ سے قبیح لغیرہ ہوجاتی ہے پس اگر وہ عوارض نہ ہوں صرف کسی مصلحت دینی مثل رد نصاریٰ ہنود یا د نیوی مثل کسب معاش وغیرہ کے لئے سیکھے تو جائز ہے۔رسول اللہ ﷺ نے زید بن ثابتؓ کو لغت وخط سریانی کہ اس زمانہ میں یہود کا لغت اور خط تھا واسطے ضرور ت مراسلت ومکاتبت یہود کے سیکھنے کے لئے فرمایا تھا ؛چنانچہ وہ آدھے مہینے سے کم میں سیکھ کر لکھنے پڑھنے لگے..... اگر وہ عوارض ہوں تو اس وقت اجتناب واجب ہے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا تورات شریف پڑھنے سے منع فرمانا صحاح میں مذکور ہے کہ احتمال مفاسد کثیرہ کا تھا سواگر کوئی ایسا شخص جو اپنی ضروریات دینیہ عقائد ومسائل سے واقف ہو اور ظن غالب ہو کہ یہ شخص بوجہ صحبت کفار وفجار کے ان کے خیالات یا رسوم یا وضع کی طرف مائل اور اپنے دین سے سست عقیدہ نہ ہوگا واسطے کسب معاش حلال وغیرہ کے انگریزی یا ہندی پڑھے جائز ہے اور جو ہنوز اپنے مذہب سے واقف نہیں خصوصاً جب کہ کم ہو اور غالب ہے کہ ایسے لوگوں کی مصاحبت سے ان کی طرف میلان ورجحان اور اپنے مذاہب سے ضعف اعتقاد پیدا ہوگا ایسے شخص کے لئے البتہ ممنوع ومصداق۔ ویتعلمون مایضرھم ولاینفغھم …الآیۃ(سورۃ البقرۃ رقم الآیۃ: ۱۰۲)کاہے اورر اقتدا پہلے شخص کی بلا کراہت جائز ہے دوسرے شخص کی اگروہ کسی عقیدہ مکفرہ کامصداق ہوگا بالکل جائز نہیں اگر صرف مرتبہ بدعت وضلالت میں ہو تو بکراہت جائز ہے ... مگر آجکل تو اکثر دیکھا جاتا ہے کہ انگریزی پڑھنے سے خرابی پیدا ہوتی ہے ’’ضررہ ٲقرب من نفعہ‘‘ لہٰذااحتیاط مناسب ہے کچھ اسی علم پر روزی منحصر نہیں اور ہوس کا کوئی منتہا نہیں(امداد الفتاوی جدید مطول حاشیہ شبیر احمد القاسمی جلد 12صفحہ نمبر: 369)

لہذا  اگر

١۔ انگریزی سیکھنے سکھانے والے کے اسلامی نظریات اورایمان کو کوئی خطرہ نہ ہو۔

۲۔ مخلوط ماحول ہونے کی صورت میں میں حتی الوسع نظر کی حفاظت ہو۔

۳۔ بلاضرورت خواتین سے اختلاط،گفتگوں اورہنسی مذاق سے اجتناب ہو۔

۴۔اس کے ساتھ ایسی جگہ کی تلاش ہو جہاں مخلوط ماحول نہ ہو اورمقصد پوراہوسکے۔

ان شرائط کےساتھ انگزیری سیکھنے سکھانے اوراس سے کمانے کی گنجائش ہے،زبان خواہ کسی کی بھی ہو وہ اللہ نے پیدا کی ہے اوریہ اس کی قدرت نشانیوں میں ہے اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں وَمِن ءايـٰتِهِ خَلقُ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ وَاختِلـٰفُ أَلسِنَتِكُم وَأَلو‌ٰنِكُم ﴿ سورة الروم:٢٢یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے آسمان اور زمین کا بنانا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا، ہرامت میں اللہ تعالی نے  رسول بھیجا ہے اورانہیں کی زبان میں بھیجاہے، لہذا کوئی زبان فی نفسہ بری نہیں ہوتی گووہ د شمن کی زبان ہی کیوں نہ ہو،ہاں خارجی عوامل کی وجہ سے اس حکم مختلف ہوسکتاہے ۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی :
وَمِن ءايـٰتِهِ خَلقُ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ وَاختِلـٰفُ أَلسِنَتِكُم وَأَلو‌ٰنِكُم ...... ﴿سورة الروم٢٢
وَلَقَد بَعَثنا فى كُلِّ أُمَّةٍ رَسولًا... ... ﴿سورة النحل ٣٦
وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا بِلِسانِ قَومِهِ...... ﴿سورة ابراهيم٤
عن زيد بن ثابت رضي الله تعالي عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم امره ان يتعلم كتاب اليهود حتي كتبت للنبي صلي الله عليه وسلم كتبه واقراته كتبهم اذا كتبوااليه (رواہ البخاری)
 روی  أحمد في مسنده عن زيد بن ثابت قالقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتحسن السريانية؟ إنها تأتيني كتب، قال: قلت: لا، قال: فتعلمها، فتعلمتها في سبعة عشر يوماًوصححه الشيخ شعيب والأرناوؤط.ورواه الحاكم وزاد: قال الأعمشكانت تأتيه كتب لا يشتهي أن يطلع عليها إلا من يثق بهانتهى، قال الألباني في الصحيحةسنده صحيح. انتهى.
عن زید بن ثابت قال: أمرني رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أن أتعلم لہ کلمات من کتاب یہود وقال: إني واﷲ ماآمن یہود علی کتابي، قال:فما مرّ بي نصف شہر حتی تعلمتہ لہ، قال: فلمّا تعلّمت کان إذا کتب إلی یہود کتبت إلیہم وإذا کتبوا إلیہ قرأت لہ کتابہم۔ (ترمذي شریف، أبواب الاستئذان والأدب، باب في تعلیم السریانیۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۱۰۰، مکتبہ دارالسلام رقم: ۲۷۱۵)
وفی الدر المختار مع الشامي:
کل ما أدی إلی مالا یجوز لایجوز: (الدر المختار مع الشامي، کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في اللبس، مکتبہ زکریا دیوبند ۹/۵۱۹، کراچي ۶/۳۶۰ )
الأصل أن سبب الحرام حرام۔ (البنایۃ، کتاب الکراہیۃ، فصل في الإستبراء وغیرہ، مکتبہ اشرفیہ دیوبند ۱۲/۱۸۷)
والاستدلال بالآیۃ علی أن الطاعۃ إذا أدت إلٰی معصیۃ راجحۃ وجب ترکہا فإن ما یؤدی إلی الشر شر۔ (روح المعاني، سورۃ الأنعام آیت: ۱۰۸، مکتبہ ذکریا دیوبند ۵/۳۶۵-۳۶۶)
فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہاً۔ (مجموعہ رسائل اللکھنوی، سباحۃ الفکر في الجہر بالذکر، إدارۃ القرآن کراچی ۳/۴۹۰)
عن علقمۃ بن وقاص اللیثی یقول: سمعت عمر بن الخطابؓ علی المنبر یقول: إنما الأعمال بالنیات وإنما لکل امرئ مانویٰ فمن کانت ہجرتہ إلی دنیا یصیبہا أو إلی امرأۃ ینکحہا فہجرتہ إلی ما ہاجر لہ۔(بخاري شریف، کتاب بدء الوحي، باب بدء الوحي، النسخۃ الہندیۃ ۱/۱، رقم: ۱)
الأمور بمقاصدہا، قواعد الفقہ، مکتبہ اشرفیہ دیوبند، ص: ۶۲۰ ۔    شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
عن أي ہریرۃ قال: ہجر النبي صلی اﷲ علیہ وسلم فہجرت فصلیت ثم جلست فالتفت إليّ النبي صلی اﷲ علیہ وسلم فقال: أشکمت درد؟ قلت: نعم! یا رسول اﷲ صلی اﷲ! قال: قم فصل فإن في الصلاۃ شفاء۔ (سنن ابن ماجہ، أبواب الطب، باب الصلاۃ شفاء، النسخۃ الہندیۃ ۲/۲۴۷، دار السلام رقم:۳۴۵۸)
عن جابر بن عبد اﷲ أن عمر بن الخطاب أتي النبي صلی اﷲ علیہ وسلم بکتاب أصابہ من بعض أہل الکتاب فقرأہ علی النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، قال: فغضب، وقال: أمتہوکون فیہا یا ابن الخطاب؟ والذي نفسي بیدہ لقد جئتکم بہا بیضاء نقیۃ، لاتسألوہم عن شيء فیخبروکم بحق فتکذبوا بہ او بباطل فتصدقوا بہ، والذي نفسي بیدہ، لو أن موسیٰ علیہ السلام کان حیا ماوسعہ إلا أن یتبعني۔ (مسند أحمد بن حنبل، بیروت ۳/۳۸۷، بیت الأفکار رقم:۱۵۲۲۳)اور مسند دارمی میں یہ روایت ان الفاظ میں منقول ہے:عن جابر رضي اﷲ عنہ أن عمر بن الخطاب رضوان اﷲ علیہ أتي رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بنسخۃ من التوراۃ فقال: یا رسول اﷲ! ہذہ نسخۃ من التوراۃ، فسکت،  فجعل یقرأ ووجہ رسول اﷲ یتغیر، فقال أبوبکر رحمۃ اﷲ علیہ: ثکلتک الثواکل، ما تري بوجہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، فنظر عمر إلی وجہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فقال: أعوذ باﷲ من غضب اﷲ ومن غضب رسولہ رضینا باﷲ ربا وبالإسلام دینا وبمحد نبیا۔ (مسند ألدارمي، باب ما یتقي من تفسیر حدیث النبي صلی اﷲ علیہ وسلم وقول غیرہ عند قولہ صلی اﷲ علیہ وسلم، دار المغني الریاض ۱/۴۰۳، رقم:۴۴۹)
و في ’’ مرقاۃ المفاتیح ‘‘ :
 قیل : فیہ دلیل علی تعلم ما مر حرام في شرعنا للتوقی والحذر عن الوقوع في الشر ، کذا ذکرہ الطیبی في ذیل کلام المظہر ، وہو غیر ظاہر ، إذ لا یعرف في الشرع تحریم تعلم لغۃ من اللغات سریانیۃ أو عبرانیۃ أو ہندیۃ أو ترکیۃ أو فارسیۃ ۔۔۔۔۔ أی لغاتکم ، بل ہو من جملۃ المباحات ، نعم یعد من اللغو ومما لا یعني ، وہو مذموم عند أرباب الکمال إلا إذا ترتب علیہ فائدۃ ، فحینئذ یستحب کما یستفاد من الحدیث اھ ۔ (۸/۴۷۷ ،  ۴۷۸ ، رقم الحدیث : ۴۶۵۹ ، کتاب الآداب ، باب السلام ، المکتبۃ الأشرفیۃ بدیوبند

    سیدحکیم شاہ عفی عنہ

   دارالافتاء جامعۃ الرشید

    12/1/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے