021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جاری کاروبار میں جزوی شرکت مع مضاربت
80900شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

مفتیان کرام! مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں شرعی رہنمائی درکار ہے۔ فریق اول :عبدالحفیظ ،فریق دوم :عامر۔

 1۔عامر کی زرعی ادویہ کی دکان ہے۔ ان کو اپنی دکان کا کل سرمایہ معلوم نہیں ہے ۔میں ان کے ساتھ انویسٹمنٹ کرنا چاہتا ہوں ۔میں نے فتویٰ معلوم کیا تو وہ کہتے ہیں ہیں جب کل سرمایہ معلوم نہ ہو تو شرکت جائز نہیں  ۔اب میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا میں (عبدالحفیظ) عامرکی دکان میں کسی ایک یا دو products میں انویسٹمنٹ کر سکتا ہوں یا نہیں؟

 2 ۔شرعی اعتبار سے یہ یہ معاملہ مضاربت کا ہے یا شرکت کا ہے؟ عامر اسی دکان کے اندر یہ اشیاءفروخت کریں گے۔

 3۔منافع کی تقسیم 60 اور 40کے تناسب سے طے پائی ہے ۔کیایہ صحیح ہے؟

 4 - منافع کی تقسیم کس وقت کی جائے گی؟ سارا مال فروخت ہونے کے بعد یا ساتھ ساتھ ہی منافع کی تقسیم کی جائے گی؟

 5 -کیا عامر دکان کے کرایہ کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟ اگر کر سکتے ہیں تو کرایے کا حساب کس طریقے سے ہو گا؟

 6 ۔ مال سارا ایک ساتھ فروخت نہیں ہوتا، مثلاً پہلے ایک مہینے میں 1لاکھ کا مال فروخت ہونے سے 10 ہزار کا منافع ہوا ہے، اب اگر اس کو دوبارہ کاروبار میں  انویسٹ کرنا چاہتا ہے تو سارا انویسٹ ہو گا یا عامر اپنا 4 ہزار منافع نکال کر باقی کا 1 لاکھ 6 ہزار انویسٹ کرے گا ؟

 7 - کیا عامر ان پیسوں کو اپنے باقی  کاروباری معمولات میں استعمال کر سکتے ہیں ؟

 8۔ انویسٹ کا اختتام کیسے ہو گا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔ اگر دوکان میں موجود مخصوص سامان یا مصنوع(پروڈکٹ)جس میں آپ شرکت کرنا چاہتے ہیں کی مجموعی

 قیمت معلوم ہو تو اس میں ایک متعین نسبت سے شرکت جائز ہوگی۔

۲۔مذکورہ صورت میں عامرشریک(working  patner) عامل ہے اور یہ معاملہ شرکت کا ہوگا۔

۳۔عامرکا حصہ اس کے سرمایہ کے تناسب سے زائد رکھا جاسکتا ہے،لہذا سؤال میں ذکرکردہ منافع کی تقسیم کےتناسب پر اگر دونوں شریک متفق ہیں تو اس میں کوئی حرج کی نہیں۔

۴۔تقسیم منافع کا کوئی بھی دورانیہ سہولت کے پیش نظر طے کیا جاسکتا ہے،تقسیم منافع کےلیےسارامال فروخت ہوناضروری نہیں۔البتہ یہ تقسیم عارضی ہوگی،آئندہ اگرکوئی نقصان ہوجائےتوپہلےتقسیم شدہ منافع  نقصان بھرنےکےلیےواپس لیاجائے گا۔

۵۔جب دوکان عقدشرکت میں داخل نہیں توکرایہ وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں اوراس کا حساب دونوں شریک آپس کی رضامندی سے کرسکتے ہیں۔

 ۶۔ری انویسٹمنٹ کے لیے عامر کا بطور شریک عامل(مضارب) کے منافع کو اصل رقم شرکت کے منافع سے الگ کرنا ضروری نہیں،بلکہ دونوں شریک یا ان میں سے کوئی ایک بھی جس قدر منافع ری انویسٹمنٹ کریں گے اسی تناسب سے ان کا سرمایہ  ومنافع کا تناسب بڑھے گا۔شرکت کاپہلاعقد جب تک باقی ہےتودرمیان میں آنے والےمنافع کاحکم اصل سرمایےکانہیں ہوگا،یعنی نقصان کی صورت میں اولااس اضافی نفع سے بھراجائےگا،لہذادوبارہ کاروبارمیں لگاناتوصحیح ہے،لیکن حساب رکھناہوگا تاکہ(متوقع)نقصان کونفع کی طرف لوٹایا جاسکے۔

۷۔ دوسرے شریک کی اجازت کے بغیر جائز نہیں۔

۸۔(۱)کسی ایک شریک کے حصص کی موجودہ مارکیٹ کی قیمت لگاکر اس کا عوض کوئی شریک ادا کرکے اس کا مالک بن جائے یا (۲)انہیں فروخت کر کے اس کی قیمت اسے ادا کردی جائے گی یا(۳)قابل تقسیم اثاثہ جات ہونے کی صورت میں ہر شریک کو اس کے حصص کے بقدر اثاثہ جات دے دئیے جائیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 312)
و (مع التفاضل في المال دون الربح وعكسه،)
وفي النهر: اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط؛ وإن شرطاه على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية اهـ ما في النهر.
قلت: وحاصل ذلك كله أنه إذا تفاضلا في الربح، فإن شرطا العمل عليهما سوية جاز: ولو تبرع أحدهما بالعمل وكذا لو شرطا العمل على أحدهما وكان الربح للعامل بقدر رأس ماله أو أكثر ولو كان الأكثر لغير العامل أو لأقلهما عملا لا يصح وله ربح ماله فقط، وهذا إذا كان العمل مشروطا كما يفيده قوله إذا شرطا العمل عليهما إلخ

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۵محرم۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے