021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زیادہ مدت گزرنے کی وجہ سے قرض پر اضافی رقم کا مطالبہ
81227خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

نانا مرحوم کے انتقال کے بعد 1992 میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ہوا طے پایا کہ جائیداد کا آٹھواں حصہ نانی( جو کہ میری والدہ اور خالہ کی سوتیلی والدہ تھیں) کو دیا جائے گا کیونکہ بیٹیاں شادی شدہ تھیں اور نانی مکان میں رہائش پذیر تھیں تو انہوں نے بیٹیوں سے مکان خریدنے کی خواہش ظاہر کر کے معاہدہ طے کیا کہ 71250 روپے بیانیہ دے کر بقایہ رقم ایک ماہ بعد ادا کی جائے گی۔ مکان کی قیمت ایک لاکھ ستر ہزار تھی، لہذا ایک ماہ بعد نانی 98750 روپے ادا کرنے کی پابند تھی یہ معاہدہ اسٹامپ پیپر پر تحریر کیا گیا مگر نانی نے بارہا اصرار اور جرگوں کے باوجود یہ رقم ادا نہ کی یہاں تک کہ پہلے اپریل 2014  میں میری خالہ اور پھر اپریل 2015  میں میری والدہ وفات پا گئی  اور آخر میں 2022 میں نانی خود وفات پا گئی ۔

نانی نے معاہدے کی مدت کے دوران دوسرا نکاح اپنے کزن سے کیا جو کہ مالی طور پر مستحکم شخص تھے اور نانی نے بادی النظر میں بدنیتی کی وجہ سے یہ ادائیگی نہیں کی نانی کے دوسرے شوہر بھی چند سال قبل انتقال کر چکے ہیں نانی کو دکان جس کی قیمت چار لاکھ تھی کی قیمت میں سے اٹھواں حصہ فورا ادا کر دیا گیا تھا جس پر ان کو کوئی اعتراض نہ تھا اور اپنی رضامندی سے گھر کے اٹھویں حصے کی رقم کو قبول کر کے بیانیہ کی رقم میں شامل کر کے سوتیلی بیٹیوں کو ادا کیا جس کو بعد ازاں وہ زیادتی کا نام دے کر باقی رقم نہ دینے کا بہانہ  کرتی رہی۔

1992 میں میری والدہ نے خالہ کو 75 ہزار روپے ادا کئے جو کہ انہوں نے قرضے کی مد میں لیے تھے دونوں بہنوں نے زبانی معاہدے کے تحت یہ بات طے کی کہ جب نانی باقی رقم ادا کریں گی تو میری والدہ اپنا حصہ ایڈجسٹمنٹ کے طور پر خالہ کو ادا کریں گی اور اس لیے میری والدہ نے مکان کے بیانیہ میں سے بھی کوئی رقم نہیں لی اس طرح بیانیہ کا حصہ ادا کر کے میری والدہ پھر 50 ہزار روپے ادا کرنے کی پابند تھی۔

مکان کی اس وقت کی قیمت ایک لاکھ ستر ہزار روپے تھی جو اب بڑھ کر 60 لاکھ روپے ہے اب میرے خالو اور خالہ زاد بھائی ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس قرضے اور اس کی ادائیگی کی مد میں ہم اس گھر سے دستبردار ہو جائیں( نانی کی وفات کے بعد خالو نے کورٹ کے ذریعے مکان ہم سارے ورثا یعنی ہم پانچ بہن بھائی اپنے بیٹے اور اپنے نام منتقل کروا لیا ہے) نانی کی اخری زندگی میں ان کی بھتیجی اور بھتیجا ان کے ساتھ رہتے تھے جبکہ ان کے دوسرے شوہر وفات پا چکے تھے خالو نے جب کورٹ سے رجوع کیا نانی کی وفات کے بعد تو نانی کے لواحقین یعنی بھتیجی کو جو کہ ان کے بعد وہاں رہ رہی تھی کورٹ بلا کر اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا اور دونوں فریقوں کوسن کر کورٹ نے ہم ساتھ لوگوں کو اس گھر کا قانونی وارث ٹھہرایا مگر ان کی بھتیجے نے قبضہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ۔

ہمارے خالو کا ہمارے دستبردار ہونے کا مطالبہ 50 ہزار روپے کے قرض کے عوض درست ہے جبکہ مکان کی قیمت اب کئی گنا بڑھ چکی ہے نانی مرحومہ کی بھتیجی جو کہ مکان پر قابض ہے اور اس کی بہن بھائیوں کا اس گھر پر کوئی حق ہے کہ نہیں نیاز محمد ہمارے نانا کی جائیداد مکان میں اب ہمارا یعنی نواسے نواسی کا کوئی حق ہے بھی یا نہیں کیونکہ ہمارے والد صاحب بھی حیات نہیں ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کی نانی مرحومہ  نے اپنی بیٹیوں(آپ کی والدہ اور خالہ) سے جب مکان خریدا تو وہ ان کی ملکیت میں آگیا، مکان کی قیمت کی ادائیگی میں جو رقم نانی نے نہیں دی ان کی زندگی میں ہی رقم کا مطالبہ کرنا چاہئے تھا، اب چوں کہ وہ فوت ہو گئیں ،لہذا وہ گھران کے انتقال کے وقت موجود زندہ ورثاء میں تقسیم ہوگا اور  ان کے ترکہ میں سے ان پر لازم   بقیہ رقم کی ادائیگی کی جائے۔

آپ کی والدہ نے اپنی بہن سے  1992 میں جو 50ہزار روپے ادھار لئے تھے ابھی بھی  50 ہزار ہی لوٹائیں، مدت گزرنے کی وجہ سے پیسوں میں اضافہ  کرنا ناجائز ہے۔

حوالہ جات

محمد جمال ناصر

دار الافتاءجامعہ الرشیدکراچی

16/صفر الخیر/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

جمال ناصر بن سید احمد خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے