021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض کے عوض گاڑی لے کر واپس قرض لینے والے کو بیچنا
80936خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

ایک شخص محمد ثاقب کو ایک عدد گاڑی کی ضرورت تھی، اس کے پاس پیسے نہیں تھے، اس لیے نوردراز نے پہلے بیس لاکھ روپے محمد ثاقب کو دیے، محمد ثاقب نے ان پیسوں کے عوض کسی شخص سے بیس لاکھ روپے کی گاڑی خریدی اور وہ گاڑی نودراز خان کو اپنے قرض کے عوض ادا کر دی، نوردراز نے اس گاڑی پر قبضہ کر لیا، اس کے ٹھیک ایک دن بعد وہ گاڑی محمد ثاقب کو اٹھارہ ماہ کے ادھار پر بتیس لاکھ روپے میں فروخت کر دی اور فریقین کے درمیان قسطوں میں ادائیگی طے ہوئی، سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 صورتِ مسئولہ میں اگر محمد ثاقب بیس لاکھ قرض لینے اور اس کے عوض گاڑی دینے کی بجائے یہ صورت اختیار کرتا کہ عمر دراز سے رقم لے کر بطورِ وکیل گاڑی اسی کے لیے خریدتا اور پھر عمر دراز گاڑی پر قبضہ کرنے کے بعد ادھار نفع پر محمد ثاقب کو فروخت کر دیتا تو یہ صورت جائز تھی، اس کو اصطلاحی اعتبار سے مرابحہ کہتے ہیں۔

البتہ مذکورہ صورت میں پہلے سے طے کر کے محمد ثاقب کا عمر دراز سے قرض لینا اور اس کے عوض گاڑی دینا اور پھر محمد ثاقب کا عمردراز سے نفع پر گاڑی واپس خریدنا سود کا حیلہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، کیونکہ قرض کی واپسی اسی جنس کے ساتھ ہوتی ہے، لہذا اس میں گاڑی خرید کردینےکی شرط لگانا درست نہیں، نیز قرض میں دوبارہ بیع کا معاملہ کرنے کی شرط لگانا بھی شرعاً ناجائز ہے۔

لہذا فریقین کے ذمہ اس معاملے کو ختم کرنا لازم ہے،نیز اگرپہلے سے طے نہ کیا جائے، مگر  آپ کے علاقے میں اس طرح کے معاملات کا عام رواج ہو تو بھی  معروف ہونے کی وجہ سے یہ ناجائز اور حرام معاملہ ہے، جس سے اجتناب لازم ہے۔

حوالہ جات
حاشية الشرنبلالي على درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 304) دار إحياء الكتب العربية:
وقال الكمال وهذا البيع مكروه وقال أبو يوسف - رحمه الله - لا يكره هذا البيع لأنه فعله كثير من الصحابة - رضي الله عنهم - وحمدوا ذلك ولم يعدوه من الربا حتى لو باع كاغدة بألف يجوز ولا يكره وقال محمد - رحمه الله - هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال اخترعه أكلة
الربا وقد ذمهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم فظهر عليكم عدوكم» أي اشتغلتم بالحرث عن الجهاد وفي رواية سلط عليكم شراركم فيدعو خياركم فلا يستجاب لكم وقيل إياك والعينة فإنها لعينة وأشد من بيع العينة البياعات الكائنة.
المعايير الشرعية(ص:165):
5/2/3: الأصل أن تتسلم المؤسسة السلعة من مخازن البائع أو من المكان المحدد في شروط التسليم، وتنتقل مسئولية ضمان المبيع إلى المؤسسة بتحقق حيازتها للسلعة، ويجوز للمؤسسة حيازتها للسلعة توكيل غيرها للقيام بذلك نيابة عنها.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

18/ محرم الحرام 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے