021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
محبوبہ کے علاوہ سے نکاح کرانے پر طلاق کو معلق کرنے کا حکم
80938طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ مَیں نے اپنی محبوبہ کو یہ کہا کہ اگر میرے گھر والے میرا نکاح آپ کے علاوہ کسی اور سے کرنے کی کوشش کریں گے، چاہے آپ سے نکاح ہونے سے پہلے یا بعد میں، یا آپ کے مرنے کے بعد کردیں تو جس سے بھی نکاح کریں گے، مَیں سب کو تین طلاقیں دیتا ہوں۔ اور یہ جملہ تین دفعہ کہا تھا۔

مَیں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اب میرا نکاح اپنی محبوبہ سے ہونے والا ہے، تو کیا اپنی محبوبہ سے نکاح کرنے سے پہلے یا بعد میں یا اُس کے مرجانے کے بعد دوسرا نکاح کر سکتا ہوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کا مذکورہ جملہ شرعاً طلاق کی قَسم ہے، لہٰذا اگر آپ کی اجازت کے ساتھ گھر والے آپ کا نکاح محبوبہ کے علاوہ کہیں اور کروادیں تو جس عورت سے آپ کا نکاح کرائیں گے اُس کو نکاح ہوتے ہی تین طلاقیں پڑجائیں گی۔ نیز مطلقہ عورت پر چونکہ خلوت کی نوبت نہیں آئے گی، اس لیے اُس پر عدتِ طلاق واجب نہیں ہوگی۔ البتہ اس (نکاح و طلاق) کے بعد کوئی نکاح کریں گے تو طلاق نہ ہوگی۔

اگر محبوبہ کے علاوہ کسی دوسری خاتون سے آپ خود نکاح کرلیں یا آپ کا نکاح گھر والے کروا دیں اور ان کو آپ نے اپنا نکاح کروانے کا وکیل نہ بنایا ہو اور نہ ہی نکاح کرانے سے پہلے انہوں نے آپ سے اجازت لی ہو، تو اس صورت میں طلاق نہ ہوگی؛ کیونکہ اگرچہ غیر شخص کی طرف سے نکاح ہوتے ہی آپ کی قسم کا تقاضا پائے جانے کی وجہ سے طلاق پڑجانی چاہیے، لیکن نکاح کے فوری بعد آپ کی اجازت نہ پائے جانے کی وجہ سے عورت آپ کی منکوحہ شمار نہیں ہوگی کہ اس پر طلاق واقع ہو، لہٰذا قسم بھی پوری ہو جائے گی اور محلِّ طلاق نہ ہونے کی وجہ سےکوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
رسائل ابن عابدين (304/1):
"كل من هاتين القاعدتين مقيدة بالأخرى، فقولهم: (الأيمان مبنية على العرف) معناه: العرف المستفاد من اللفظ، لا الخارج عن اللفظ اللازم له. وقولهم: (الأيمان مبنية على الألفاظ لا الأغراض) معناه: الألفاظ العرفية. وإذا تعارض الوضع الأصلي للكلمة والوضع العرفي، ترجح الوضع العرفي.
الدر المختار (341/3):
"التعليق  (هو) ... (ربط حصول مضمون جملة بحصول مضمون جملة أخرى)، ويسمى يمينا مجازا. وشرط صحته كون ... (شرط الملك) حقيقة ... أو الحكمي كذلك (كإن) نكحت امرأة أو إن (نكحتك فأنت طالق)، وكذا كل امرأة."
رد المحتار (305/11):
"(قوله: أو إن نكحتك) لا فرق بين كونها أجنبية أو معتدة، كما في البحر. (قوله: وكذا كل امرأة) أي إذا قال: كل امرأة أتزوجها طالق. والحيلة فيه ما في البحر من أنه يزوجه فضولي ويجيز بالفعل، كسوق الواجب إليها، أو يتزوجها بعد ما وقع الطلاق عليها؛ لأن كلمة "كل" لا تقتضي التكرار."
الهداية (250/1):
"وإذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح، مثل أن يقول لامرأة: إن تزوجتك فأنت طالق. أو كل امرأة أتزوجها فهي طالق ... الظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط، فيصح يمينا أو إيقاعا. ولا تصح إضافة الطلاق، إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك؛ لأن الجزاء لا بد أن يكون ظاهرا، ليكون مخيفا، فيتحقق معنى اليمين، وهو القوة والظهور بأحد هذين، والإضافة إلى سبب الملك بمنزلة الإضافة إليه؛ لأنه ظاهر عند سببه."
الدر المختار (352/3):
"تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة)."
رد المحتار (327/11):
"(قوله: أي تبطل اليمين) أي تنتهي وتتم، وإذا تمت حنث ... (قوله: ببطلان التعليق) فيه أن اليمين هنا هي التعليق ... لو قال: أي امرأة أتزوجها فهي طالق، لا يقع إلا على امرأة واحدة."

محمد مسعود الحسن صدیقی

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

19/محرم الحرام/1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے