021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابرکرنے کی وجہ
80919دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ

    اسلام میں مرد اورعورت برابرہیں تو پھر کیوں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابرکی گئی ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حدودمیں عورتوں کو گواہی کی زحمت نہیں دی جاتی، جبکہ عورتوں سے متعلقہ بعض مخصوص  مسائل میں صرف عورتوں کی گواہی قبول کی جاتی ہے جیسے ولادت ،حیض ،عدت ،بکارت وغیرہ کے مسائل جبکہ دیگر مالی معاملات میں شریعت نے  دو مرد نہ ہونے کی صورت میں ایک مرد اوردو عورتوں کی گواہی کو کافی سمجھاہے ، یعنی دوعوتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر کی گئی ہے ،اس کی اصلی وجہ تو قرآن ،حدیث اوراجماع ہے ،قرآن کریم سورہ بقرہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:"فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ"(آیت282)کہ اگر دو مرد نہ ہوں توایک مرد اوردوعورتوں کی گواہی ضروری ہے۔ اورمسلم شریف کی ایک لمبی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ارشاد فرماتے ہیں "فشهادة امرأتین تعدل شهادة رجل" کہ دوعورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے ،اسی طرح اس بات پر اجماع بھی ہے کہ دو مرد میسرنہ ہوتو دو عورتوں کی  گواہی ایک مرد کے برابر ہے  ۔ (موسوعة الفقه الإسلامي ج 1 / ص 48)

     ایک مسلمان بندے کےلیےتوبس  اتنی ہی بات کافی ہے کہ رب العالمین نے  قرآن میں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک احادیث میں اورامت نےاجماع سے دوعورتوں کی گواہی کو ایک کے برابر کیاہے،گواس کی حکمت اس کو  سمجھ میں نہ آئے ،کیونکہ ایک بندے کے لیے کامل  عبدیت اوراطاعت یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے معبود برحق  کےہرہر قول اورفعل کو  دل وجان سے قبول کرے خواہ اس کو وہ  سمجھ میں آئے یا نہ آئے ،یہی ایمان بالغیب ہے اوریہی وہ چیز ہے جس کی کلام اللہ میں تعریف کی گئی ہے ۔یؤمنون  بالغیب الخ،تاہم دلوں کی مزید اطمینان کی خاطر قرآن اورحدیث میں اس کی حکمت بھی  بیان کی گئی ہے اورعلماء کو اس کی تشریح کی ہے ،جس کا حاصل یہ ہےکہ شریعت نے جو مالی معاملات میں دو عورتوں کی گواہی کو  ایک مرد کے برابرقراردیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عورت بھول جاتی ہے تو دوسری اس کویاد لاتی ہے ۔

تمام حکماءکا اس پر اتفاق ہے کہ عورت کی خلقت بہ نسبت مرد کے ضعیف ہے،اس کے قویٰ دماغیہ بھی جسمانی قویٰ کے طرح مرد سے کمزور ہیں، اب اگر شاذونادر کوئی عورت ایسی نکل آئی کہ جس کی جسمانی یا دماغی طاقت مردوں سے زیادہ ہو تو اس سے اکثری فطری قاعدے میں کوئی خلل نہیں آسکتا۔ یہ صحیح ہے کہ تعلیم سے مرد اور عورت کے قویٰ دماغی میں ،اس طرح ریاضت  سے قوائے جسمانی میں ترقی ہوسکتی ہے مگر کسی حال میں عورت کی صنف کی فضیلت مرد کے صنف پر ثابت نہیں ہوسکتی  اور جن لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ تعلیم اور ریاضت سے عورتیں مردوں پر فضیلت حاصل کرسکتی ہیں۔ یہ ان کی غلطی ہے۔ اس لیے کہ بحث نوع ذکور اور نوع نسواں میں ہے نہ کسی خاص شخص مذکر یا مؤنث میں ،حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی محترمہ والدہ کا واقعہ بیان کیا کہ وہ مکہ شریف کی ایک عدالت میں ایک عورت کے ساتھ پیش ہوئیں۔ تو حاکم نے امتحان کے طور پر ان کو جدا جدا کرنا چاہا۔ فوراً انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ان تضل إحداھما فتذکر إحدهما الأخري ( البقرۃ: 282 ) ان دو گواہ عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادےگی اور یہ جدائی کی صورت میں ناممکن ہے۔ حاکم نےان کے استدلال کو تسلیم کیا۔

اس تفاوت کی وجہ انسانیت اورکرامت  کےساتھ نہیں ہےورنہ تو اکیلی عورت کی گواہی بعض دیگرمعاملات میں قبول نہ  کی جاتی  جبکہ وہاں اکیلی عورت کی گواہی قبول کی جاتی ہے، معلوم ہوا کہ وجہ کچھ اورہے اوروہ یہ ہےکہ معاملات میں تثبت اوراحتیاط سے کام لیاجاتا ہے کیونکہ اس میں حقوق العباد  متعلق ہوتےہیں اورعورتیں  بیشتراوقات بالخصوص بیع اورشراء کے اوقات میں چونکہ گھرکی  ذمہ داریوں میں مصروف ہوتی ہیں اورگواہی دینے کی ضرورت ان کو نادر طورپر پیش آتی ہے اورعدالت اورجج کا اپناایک رعب ہوتاہے تو یہ بات بالکل قرینِ قیاس ہے کہ وہ اس منظرسے ہیبت میں آئے اوربھول جائے جبکہ حقوق کامعاملے میں حد درجے احتیاط کی ضروت ہوتی ہے  تواس لئے اس کو ضرورت ہوگی کہ ایک اورعورت کو اس کا معاون بنایاجائےتاکہ ضرورت کے موقع پروہ  اس کو یاد دلائےاور وہ اپنی گواہی مکمل کرسکے اورلوگوں کے حقوق ضائع نہ ہوتواس طرح تو یہ اس  کے ساتھ ایک گونہ تعاون ہے ،اس لیے کہ اس سےاس کی  مشکل آسان ہوگئی ،اس میں ذرا بھی اس کی اہانت کا پہلونہیں ۔اسی بات کی طرف قرآن کریم میں اشارہ کیاگیاہے ہے" أن تضل إحداهما فتذکر إحدہما الأخري"اگروہ بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلائے  ۔موجود زمانے کی سٹڈیزاورتحقیقات نےاس حکم شرعی کی مزید تائید کردی ہے ۔

ایک اسٹدی میں کہاگیاہے کہ عورت کے دماغ کا آپریشن کیاگیا تو معلوم ہوا کہ مرد کے دماغ میں موجود اعصابی خلیوں کی مقدار عورت کے دماغ میں موجود خلیوں کی مقدار سے 16فیصد زیادہ ہے اورمتعدد دیگر تحقیقات میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ زہانت کا تعلق دماغ میں موجود خلیوں سے ہے، مرد کے دماغ کا اوسط وزن عورت کے دماغ کے وزن سے تقریبا 150گرام زیادہ ہے کیونکہ مرد کے دماغ کا وزن 1375گرام ہے اورعورت کے دماغ کا وزن 1225 گرام ہے۔

مرد اورعوتوں کے دماغوں کام کے حوالےسے پائے جانے والے فروق پر کافی تحیقات ہوئی ہیں جن میں ایک بڑی تحقیق وہ ہے جو امریکا کی شکاگو یونیورسٹی میں 1995میں  ہوئی تھی اورباوجود مساوات ثابت کرنے کی پھرپورکوشش کے ثابت ہوا کہ دونوں کے دماغوں کے کام میں فرق ہے جوجدیدچیز اس تحقیق میں سامنے آئی ہےجوکہ چھ مختلف تحقیقات اورحکومتی ٹیسٹوں کے کا نتیجہ تھی وہ یہ تھی کہ مردوں میں زہانت کی نسبت عورتوں سے زیادہ ہےاوردونوں میں واضح فروق ہیں باوجود اس کے کہ انہوں نے بھر پورکوشش کی ان میں کسی طرح مساوات ثابت کی جائے۔ (انظر جريدة الشرق الأوسط، العدد: 6092، تاريخ: 3/8/1995م)

شيخ عبد المجيد بن عزيز الزنداني  یمنی جوسعودیہ میں" هيئة الإعجاز العلمي في القرآن والسنة" کے رئیس بھی رہ چکے ہیں اوراب یمن میں" جامعة الایمان" کے رئیس اوربانی ہیں فرماتے ہیں کہ جدید تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مرد اورعوت دونوں کے لیے دو مرکزہوتے ہیں ایک مرکز بات کے لیے اوردوسرا یاد رکھنے کےلیے ہوتاہے مرد جب بات کرتاہے تووہ  ایک کو کام میں لاتاہے اوردوسرا یاداشت کے لیے رہتاہے جبکہ عورت جب بات کرتی ہے تو دونوں کو استعمال میں لاتی ہےجس کی وجہ سے وہ واقعہ کو پورے طوریاد نہیں رکھ سکتی اوراس کو یاد دلانے کی ضروت ہوتی ہے([1]) ۔

 


﴿[1] ﴾ ( https://islamweb.net/ar/fatwa/33323/)

 

حوالہ جات
قال اللہ تعالی :
وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى [البقرة/282]
قال الامام ابن کثیر تحت ھذہ الایةفی تفسيرہ (ج 1 / ص 724)
وهذا إنما يكون في الأموال وما يقصد به المال، وإنما أقيمت المرأتان مقام الرجل لنقصان عقل المرأة، كما قال مسلم في صحيحه.
وفی صحيح مسلم للنيسابوري - (ج 1 / ص 61)
عن عبد الله بن عمر عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنه قال « يا معشر النساء تصدقن وأكثرن الاستغفار فإنى رأيتكن أكثر أهل النار ». فقالت امرأة منهن جزلة وما لنا يا رسول الله أكثر أهل النار. قال « تكثرن اللعن وتكفرن العشير وما رأيت من ناقصات عقل ودين أغلب لذى لب منكن ». قالت يا رسول الله وما نقصان العقل والدين قال « أما نقصان العقل فشهادة امرأتين تعدل شهادة رجل فهذا نقصان العقل وتمكث الليالى ما تصلى وتفطر فى رمضان فهذا نقصان الدين ».
وفی موسوعة الفقه الإسلامي - (ج 1 / ص 48)
وقد يتفقون على اعتبار نوع من الأدلة طريقا للقضاء ، ولكنهم يختلفون فى نطاق الاستدلال به كشهادة الشاهدين رجلين أو رجل وامرأتين، أجمعوا على أنها طريق للقضاء، ولكنهم اختلفوا : هل تكون فى مسائل الأموال والمعاملات فقط أو فيما عدا الحدود والقصاص من الأموال والنكاح والطلاق .
صحيح البخاري لعبدالله البخاري - (ج 1 / ص 79)
عن أبى سعيد الخدرى قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في اضحى أو فطر إلى المصلى فمر على النساء فقال يا معشرالنساء تصدقن فانى أريتكن اكثر اهل النار فقلن وبم يا رسول الله قال تكثرن اللعن وتكفرن العشير ما رأيت من ناقصات عقل ودين اذهب للب الرجل الحازم من احداكن قلن وما نقصان دينا وعقلنا يا رسول الله قال اليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل قلن بلى قال فذلك من نقصان عقلها اليس إذا حاضت لم تصل ولم تصم قلن بلى قال فذلك من نقصان دينها.
متن بداية المبتدى في فقه الإمام أبي حنيفة - (ج 1 / ص 151)
الشهادة على مراتب منها الشهادة في الزنا يعتبر فيها أربعة من الرجال ولا تقبل فيها شهادة النساء ومنها الشهادة ببقية الحدود والقصاص تقبل فيها شهادة رجلين ولا تقبل فيها شهادة النساء وما سوى ذلك من الحقوق يقبل فيها شهادة رجلين أو رجل وامرأتين سواء كان الحق مالا أو غير مال وتقبل في الولادة والبكارة والعيوب بالنساء في موضع لا يطلع عليه الرجال شهادة امرأة واحدة.
فتح القدير - (ج 17 / ص 54)
( قوله وتقبل في الولادة والبكارة والعيوب بالنساء في موضع لا يطلع عليه الرجال شهادة امرأة واحدة ) مسلمة حرة عدلة والثنتان أحوط وبه قال أحمد .وشرط الشافعي أربعا .
العناية شرح الهداية - (ج 10 / ص 385)
قال ( وتقبل في الولادة والبكارة والعيوب بالنساء في موضع لا يطلع عليه الرجال شهادة امرأة واحدة ) لقوله عليه الصلاة والسلام { شهادة النساء جائزة فيما لا يستطيع الرجال النظر إليه } والجمع المحلى بالألف واللام يراد به الجنس فيتناول الأقل .

    سیدحکیم شاہ عفی عنہ

  دارالافتاءجامعۃالرشید

    16محرم الحرام 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے