021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انسانی جذبات واحساسات کا مرکز کیا ہے؟
80920قرآن کریم کی تفسیر اور قرآن سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ

     قرآن ،حدیث ،لٹیچراورفلسفہ میں انسانی جذبات واحساسات کا مرکز دل کو کہاگیاہے ؟ جبکہ سائنس ٹھوس تجربات کی بناء پر دماغ کو اس کا مرکز کہتاہے ۔کیایہ تضاد ہے؟ یا اس کی تشریح کسی اورطریقہ سے ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دل محض خون پمپ کرنے کا آلہ ہے یا سوچنے سمجھنے اور فیصلے کرنے والا انسانی جسم کا حکمران؟ پہلی رائے اب تک جدید سائنس کی رہی ہے جبکہ دوسرا موقف اللہ اور رسولؐ کے ارشادات پر مبنی ہے۔اپنی سرکشی سے خود کو جہنم کا مستحق بنالینے والے جنوں اور انسانوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے ’’ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں‘‘ (سورہ ٔاعراف:179) ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں کہ انسان کے تمام معاملات کی درستی کا انحصار دل کے درست ہونے پر ہے۔ صحیح بخاری کتاب الایمان کی مشہور حدیث کے مطابق نبی اکرم نے فرمایا ’’آگاہ رہو، جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ ٹھیک رہے تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم فساد کا شکار ہوجاتا ہے‘‘۔
سائنس اور قرآن کے اس اختلاف کی توجیہہ عام طور پر یہ کی جاتی رہی ہے کہ دل سے پسلیوں کے پنجرے میں مقید مخروطی عضو نہیں بلکہ انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مراد ہے۔ نیز اس صلاحیت کا تعلق تو اصل میں دماغ ہی سے ہے مگر زمانہ قدیم سے چونکہ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ یہ دل کا کام ہے اس لئے آسمانی کتابوں اور مذہبی تعلیمات میں اس حوالے سے دل ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہر زبان اور ہر دور کے ادب اور شاعری میں محبت اور نفرت، دوستی اور دشمنی، دیانت اور خیانت، ایثار و خودغرضی، بخل اور سخاوت جیسے تمام جذبوں اور اعمال نیز روحانی معاملات کا رشتہ دل ہی سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ اسی تصور کے تحت دل جیتے اور ہارے جاتے ہیں۔ محبوب دلوں ہی میں بستے ہیں۔ دلوں کی کشادگی اور تنگی ہی سے باہمی تعلقات بنتے اور بگڑتے ہیں۔ دنیا کی تمام زبانوں میں دلکشی، دلفریبی، دلنوازی، دلربائی، دلداری، دریا دلی وغیرہ جیسی ترکیبیں دل کے اسی تصور کی بنا پر رائج ہیں۔ دل میلا ہونا، دل صاف ہونا، دل ٹوٹنا،دل دُکھانا، دل بہلانا، دل لگانا، دل جلانا، دل خوش کرنا، دل کا باغ باغ ہوجانا،یہ تمام محاورے دل کے بارے میں اسی عمومی تصور کا نتیجہ ہیں جو انسانی معاشروں میں عصر حاضر سمیت ہر دور میں موجود رہا ہے۔ دل کو محض ایک پمپ نہیں بلکہ فہم و شعور کا مرکز سمجھے جانے ہی کی بنا پر غالب نے کہا تھا :
        یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات        دے اور دل اُن کو ،جو نہ دے مجھ کو زباں اور

اس سب کے باوجود دل کے بارے میں جدید سائنس کا موقف چند برس پہلے تک یہی تھا کہ یہ محض خون پمپ کرنے کا آلہ ہے مگر پچھلے چند برسوں میں انسانی جسم میں دل کے کردار کے حوالے سے سائنس کے نقطہ نظر میں ایک انقلابی اور حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوئی ہے جس کے بعد دل کے حوالے سے سائنس کے آسمانی کتابوں، ادب اور شاعری سے ہم آہنگ ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ تازہ ترین سائنسی تحقیقات کے مطابق دماغ ہی نہیں انسانی دل بھی سوچتا سمجھتا اور فیصلے کرتا ہے بلکہ زندگی کے انتہائی بنیادی فیصلے دل ہی کرتا ہے اور اس مقصد کے لئے انسانوں کے خالق نے ان کے دل کے اندر بھی دماغ کی طرح کام کرنے والا ایک نظام تخلیق کررکھا ہے۔

امریکی ریاست کیلی فورنیا کے دی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ میتھ کے ڈائریکٹر ریسرچ ڈاکٹر رولن میک کریٹے اس بات کو مجازاً یوں کہتے ہیں کہ’’دل میں بھی ایک دماغ ہے‘‘ اس کی وضاحت انہوں نے ان الفاظ میں کی ہے’’دل ایسے اعصاب اور خلیات رکھتا ہے جن کا کام بالکل وہی ہے جو دماغ کا ہے،مثلاً یادداشت۔ یہ علم الابدان کی ایک حقیقت ہے.....دل دماغ کو اس سے زیادہ معلومات بھیجتا ہے جو دماغ دل کو بھیجتا ہے‘‘۔

’’ہارٹ برین‘‘ یعنی ’’دل کا دماغ‘‘ کی اصطلاح 1991ء میں ڈاکٹر جے اینڈریو آرمر نے وضع کی، انہی نے دل کو ’’چھوٹے دماغ‘‘ کا نام بھی دیا۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول کے مطابق ’’دل اور دماغ کے درمیان کیمیائی بات چیت دونوں اعضاء کو متاثر کرتی ہے۔ افسردگی، تناؤ، احساس تنہائی،مثبت سوچ اور دوسرے نفسیاتی سماجی عوامل دل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دل کی صحت دماغ اور ذہن پر اثر ڈال سکتی ہے‘‘۔

دل کے دماغ کی طرح کام کرنے کے انکشافات کے بعد نیورو کارڈیالوجی کے نام سے علم طب کی ایک نئی شاخ وجود میں آئی ہے جو دل اور دماغ کے باہمی تعلق کے امور سے بحث کرتی ہے۔ تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ منفی جذبات، دل کی دھڑکن اور دماغی لہروں دونوں کی ترتیب اور آہنگ میں خلل ڈالتے ہیں۔ دل جسمانی واسطوں سے دماغ کو پیغامات بھیجتا ہے اور دماغ انہیں جذبات میں ڈھال دیتا ہے۔ ڈاکٹر میک کریٹے اس کی تشریح یوں کرتے ہیں ’’دل کی دھڑکنیں مورس کوڈ کی طرح ہیں، ان پیغامات سے ایک شخص کے جذبات کی کیفیت کی عکاسی ہوتی ہے‘‘۔ ڈاکٹر ڈومینک سُرل ’’تھنکنگ فرام دی ہارٹ‘‘کے عنوان سے اپنے ایک مقالے میں بتاتے ہیں کہ’’ پچھلے دو عشروں میں ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ دل اطلاعات کی پروسسنگ کا مرکز ہے جو سیکھ سکتا ہے، یاد رکھ سکتا ہے، کھوپڑی میں موجود دماغ سے بالاتر رہتے ہوئے خودمختارانہ طور پر کام کرسکتا ہے اور عملاً کلیدی دماغ کو سگنل بھیجتا اور مربوط کرتا اور یوں ہمارے فہم و ادراک اور جذبات کو منضبط کرتا ہے۔ گویا ہم اپنے سینے میں ایک دوسرا دماغ رکھتے ہیں‘‘۔

دل کے بارے میں یہ نئی سائنسی تحقیق، جس کے مختلف پہلوؤں پر بڑے پیمانے پر کام جاری ہے، بارہا سامنے آنے والی اس حقیقت کا ایک اور ثبوت ہے کہ سائنس کے نام پر پیش کی جانے والی ہر بات حتمی سچائی نہیں ہوتی۔ حقیقت کی تلاش کے لئے سائنس کا سفر جاری ہے۔اس لئے سائنس کے تمام نظریات کو حتمی حقیقت سمجھ کر وحی الٰہی کے ذریعے ملنے والی معلومات کو ان کی کسوٹی پر جانچنے کی روش درست نہیں ۔کائنات کی پیدائش، انسان کی تخلیق، خدا کے وجود اور کائنات پر اس کی فرماں روائی سمیت ایسے تمام معاملات میں درست راستہ یہ سمجھنا ہے کہ سائنس کائنات کے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش میں ہے لیکن اب تک بے پناہ حقائق تک اس کی پہنچ سے باہر ہیں، جیسا کہ جدید سائنس کے امام نیوٹن نے کہا تھا کہ ’’میں نہیں جانتا کہ دنیا کی نگاہوں میں میرا مقام کیا ہے لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں اپنے آپ کو محض ایک ایسا بچہ سمجھتا ہوں جو ساحل سمندر پر کھیل رہا ہے اور اسے عام سنگ ریزوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہموار سنگ ریزے یا زیادہ خوبصورت سیپیاں مل گئی ہیں جبکہ غیر دریافت شدہ حقائق کا وسیع سمندر اس کے سامنے ٹھاٹھیں مار رہا ہے‘‘([1]

 


([1] ) (بحوالہ د ل، سائنس اور قرآن /ثرت جمال اسمعی https://jang.com.pk/news/14122)

 

حوالہ جات
قال اللہ تعالی :
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآَنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا  [محمد/24]
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آَذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ  [الأعراف/179]
إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آَمَنُوا سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ [الأنفال/12، 13]
لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ [التوبة/117]
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آَذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [الحج/46]
كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ [الروم/59]
وَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ [الفتح/4]
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آَثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآَتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً  [الحديد/27]
إنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ق/37]
وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ [البقرة/93]
أُولَئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُلْ لَهُمْ فِي أَنْفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا  [النساء/63]
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آَمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آَخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ [المائدة/41]
وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آَذَانِهِمْ وَقْرًا  [الأنعام/25]
فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [الأنعام/43]
إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ  [التوبة/45]
رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ [التوبة/87]
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَاءُ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ [التوبة/93]
وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ نَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوا صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ  [التوبة/127]
الَّذِينَ آَمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ  [الرعد/28]
وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آَذَانِهِمْ وَقْرًا  [الإسراء/46]
وَأَنْزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُمْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا [الأحزاب/26]
وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [سبأ/23]
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا [الفتح/18]
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آَمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ  [الحديد/16]
فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [الحشر/2]
ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ آَمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ [المنافقون/3]
تفسير الرازي ابو عبدالله الرازي - (ج 12 / ص 1)
وأما قوله : { على قَلْبِكَ } ففيه قولان : الأول : أنه إنما قال : { على قَلْبِكَ } وإن كان إنما أنزله عليه ليؤكد به أن ذلك المنزل محفوظ للرسول متمكن في قلبه لا يجوز عليه التغيير فيوثق بالإنذار الواقع منه الذي بين الله تعالى أنه هو المقصود ولذلك قال : { لِتَكُونَ مِنَ المنذرين } الثاني : أن القلب هو المخاطب في الحقيقة لأنه موضع التمييز والاختبار ، وأما سائر الأعضاء فمسخرة له والدليل عليه القرآن والحديث والمعقول ، أما القرآن فآيات إحداها قوله تعالى في سورة البقرة ( 97 ) : { فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ على قَلْبِكَ } وقال ههنا : { نَزَلَ بِهِ الروح الأمين على قَلْبِكَ } وقال : { إِنَّ فِى ذلك لذكرى لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ } [ ق : 37 ] ، وثانيها : أنه ذكر أن استحقاق الجزاء ليس إلا على ما في القلب من المساعي فقال : { لاَّ يُؤَاخِذُكُمُ الله باللغو فِى أيمانكم ولكن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ }[ البقرة : 225 ] وقال : { لَن يَنَالَ الله لُحُومُهَا وَلاَ دِمَاؤُهَا ولكن يَنَالُهُ التقوى مِنكُمْ } [ الحج : 37 ] والتقوى في القلب لأنه تعالى قال : { أُوْلَئِكَ الذين امتحن الله قُلُوبَهُمْ للتقوى } [ الحجرات : 3 ] وقال تعالى : { وَحُصّلَ مَا فِى الصدور } [ العاديات : 10 ] . وثالثها : قوله حكاية عن أهل النار : { لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِى أصحاب السعير } [ الملك : 10 ] ومعلوم أن العقل في القلب والسمع منفذ إليه ، وقال : { إِنَّ السمع والبصر والفؤاد كُلُّ أولئك كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً } [ الإسراء : 36 ] ومعلوم أن السمع والبصر لا يستفاد منهما إلا ما يؤديانه إلى القلب ، فكان السؤال عنهما في الحقيقة سؤالاً عن القلب وقال تعالى : { يَعْلَمُ خَائِنَةَ الأعين وَمَا تُخْفِى الصدور } [ غافر : 19 ] ، ولم تخف الأعين إلا بما تضمر القلوب عند التحديق بها ورابعها : قوله : { وَجَعَلَ لَكُمُ السمع والأبصار والأفئدة قَلِيلاً مَّا تَشْكُرُونَ } [ السجدة : 9 ] فخص هذه الثلاثة بإلزام الحجة منها واستدعاء الشكر عليها ، وقد قلنا لا طائل في السمع والأبصار إلا بما يؤديان إلى القلب ليكون القلب هو القاضي فيه والمتحكم عليه ، وقال تعالى : { وَلَقَدْ مكناهم فِيمَا إِن مكناكم فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعاً وأبصارا وَأَفْئِدَةً فَمَا أغنى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلاَ أبصارهم وَلاَ أَفْئِدَتُهُمْ من شيء } [ الأحقاف : 26 ] فجعل هذه الثلاثة تمام ما ألزمهم من حجته ، والمقصود من ذلك هو الفؤاد القاضي فيما يؤدي إليه السمع والبصر وخامسها : قوله تعالى : { خَتَمَ الله على قُلُوبِهِمْ وعلى سَمْعِهِمْ وعلى أبصارهم } [ البقرة : 7 ] فجعل العذاب لازماً على هذه الثلاثة وقال : { لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لاَّ يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ ءاذَانٌ لاَّ يَسْمَعُونَ بِهَا } [ الأعراف : 179 ] وجه الدلالة أنه قصد إلى نفي العلم عنهم رأساً ، فلو ثبت العلم في غير القلب كثباته في القلب لم يتم الغرض فهذه الآيات ومشاكلها ناطقة بأجمعها أن القلب هو المقصود بإلزام الحجة ، وقد بينا أن ما قرن بذكره من ذكر السمع والبصر فذلك لأنهما آلتان للقلب في تأدية صور المحسوسات والمسموعات .وأما الحديث فما روى النعمان بن بشير قال سمعته عليه السلام يقول : « ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله ، وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهي القلب » وأما المعقول فوجوه : أحدها : أن القلب إذا غشي عليه فلو قطع سائر الأعضاء لم يحصل الشعور به وإذا أفاق القلب فإنه يشعر بجميع ما ينزل بالأعضاء من الآفات فدل ذلك على أن سائر الأعضاء تبع للقلب ولذلك فإن القلب إذا فرح أو حزن فإنه يتغير حال الأعضاء عند ذلك ، وكذا القول في سائر الأعراض النفسانية وثانيها : أن القلب منبع المشاق الباعثة على الأفعال الصادرة من سائر الأعضاء وإذا كانت المشاق مبادىء للأفعال ومنبعها هو القلب كان الآمر المطلق هو القلب وثالثها : أن معدن العقل هو القلب وإذا كان كذلك كان الآمر المطلق هو القلب . أما المقدمة الأولى : ففيها النزاع فإن طائفة من القدماء ذهبوا إلى أن معدن العقل هو الدماغ والذي يدل على قولنا وجوه : الأول : قوله تعالى : { أَوَلَمْ يَسيرُواْ فِى الأرض فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا } [ الحج : 46 ] وقوله : { لَهُمْ قُلُوبٌ لاَّ يَفْقَهُونَ بِهَا } [ الأعراف : 179 ] وقوله : { إِنَّ فِى ذلك لذكرى لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ } [ ق : 37 ] أي عقل ، أطلق عليه اسم القلب لما أنه معدنه الثاني : أنه تعالى أضاف أضداد العلم إلى القلب ، وقال : { فِى قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ } [ البقرة : 10 ] ، { خَتَمَ الله على قُلُوبِهِمْ } [ البقرة : 7 ] وقولهم : { قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ الله عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ } [ النساء : 155 ] ، { يَحْذَرُ المنافقين أن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِم } [ التوبة : 64 ] ، { يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ مَّا لَيْسَ فِى قُلُوبِهِمْ } [ الفتح : 11 ] ، { كَلاَّ بَلْ رَانَ على قُلُوبِهِمْ } [ المطففين : 14 ] ، { أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ القرءان أَمْ على قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا } [ محمد : 24 ] ، { فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الأبصار ولكن تعمى القلوب التى فِى الصدور } [ الحج : 46 ] فدلت هذه الآيات على أن موضع الجهل والغفلة هو القلب فوجب أن يكون موضع العقل والفهم أيضاً هو القلب الثالث : وهو أنا إذا جربنا أنفسنا وجدنا علومنا حاصلة في ناحية القلب ، ولذلك فإن الواحد منا إذا أمعن في الفكر وأكثر منه أحس من قلبه ضيقاً وضجراً حتى كأنه يتألم بذلك ، وكل ذلك يدل على أن موضع العقل هو القلب ، وإذا ثبت ذلك وجب أن يكون المكلف هو القلب لأن التكليف مشروط بالعقل والفهم الرابع : وهو أن القلب أول الأعضاء تكوناً ، وآخرها موتاً ، وقد ثبت ذلك بالتشريح ولأنه متمكن في الصدر الذي هو أوسط الجسد ، ومن شأن الملوك المحتاجين إلى الخدم أن يكونوا في وسط المملكة لتكتنفهم الحواشي من الجوانب فيكونوا أبعد من الآفات ، واحتج من قال العقل في الدماغ بأمور : أحدها : أن الحواس التي هي الآلات للإدراك نافذة إلى الدماغ دون القلب وثانيها : أن الأعصاب التي هي الآلات في الحركات الاختيارية نافذة من الدماغ دون القلب وثالثها : أن الآفة إذا حلت في الدماغ اختل العقل ورابعها : أن في العرف كل من أريد وصفه بقلة العقل قيل إنه خفيف الدماغ خفيف الرأس وخامسها : أن العقل أشرف فيكون مكانه أشرف ، والأعلى هو الأشرف وذلك هو الدماغ لا القلب فوجب أن يكون محل العقل هو الدماغ والجواب عن الأول : لم لا يجوز أن يقال الحواس تؤدي آثارها إلى الدماغ ، ثم إن الدماغ يؤدي تلك الآثار إلى القلب ، فالدماغ آلة قريبة للقلب للقلب والحواس آلات بعيدة فالحس يخدم الدماغ ، ثم الدماغ يخدم القلب وتحقيقه أنا ندرك من أنفسنا أنا إذا عقلنا أن الأمر الفلاني يجب فعله أو يجب تركه ، فإن الأعضاء تتحرك عند ذلك ، ونحن نجد التعقلات من جانب القلب لا من جانب الدماغ وعن الثاني : أنه لا يبعد أن يتأدى الأثر من القلب إلى الدماغ ، ثم الدماغ يحرك الأعضاء بواسطة الأعصاب النابتة منه ، وعن الثالث : لا يبعد أن يكون سلامة الدماغ شرطاً لوصول تأثير القلب إلى سائر الأعضاء ، وعن الرابع : أن ذلك العرف إنما كان لأن القلب إنما يعتدل مزاجه بما يستمد من الدماغ من برودته ، فإذا لحق الدماغ خروج عن الاعتدال خرج القلب عن الاعتدال أيضاً ، إما لازدياد حرارته عن القدر الواجب أو لنقصان حراراته عن ذلك القدر فحينئذ يختل العقل وعن الخامس : أنه لو صح ما قالوه لوجب أن يكون موضع العقل هو القحف ، ولما بطل ذلك ثبت فساد قولهم والله أعلم .
صحيح البخاري ـ م م - (ج 1 / ص 20)
عن عامر قال سمعت النعمان بن بشير يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الحلال بين والحرام بين وبينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس فمن اتقى المشبهات استبرأ لدينه وعرضه ومن وقع في الشبهات كراع يرعى حول الحمى يوشك أن يواقعه ألا وإن لكل ملك حمى ألا إن حمى الله في أرضه محارمه ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهي القلب
الآداب للبيهقي - (ج 1 / ص 20)
عن عياض بن حمار ، أن نبي الله صلى الله عليه وسلم ، قال : أهل الجنة ثلاثة : ذو سلطان مقتصد متصدق
موفق ، ورجل رحيم رقيق القلب بكل ذي قربى ومسلم ، وفقير عفيف متصدق.
الآداب للبيهقي - (ج 1 / ص 458)
عن أنس بن مالك ، فذكر قصة في إبراهيم ابن النبي صلى الله عليه وسلم ، ثم قال : فلقد رأيته بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يكيد بنفسه ، فدمعت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وقال : تدمع العين ويحزن القلب ولا نقول إلا ما يرضي ربنا ، والله يا إبراهيم إنا بك لمحزونون.
الأدب المفرد للبخاري - (ج 1 / ص 98)
عن أبى هريرة قال قال النبي صلى الله عليه و سلم أقل الضحك فإن كثرة الضحك تميت القلب .
كنز العمال - (ج 6 / ص 115)
عليكم بالحزن فإنه مفتاح القلب، قالوا: يا رسول الله وكيف الحزن، قال: أجيعو أنفسكم بالجوع وأظمئوها. (هب) عن ابن عباس.
كنز العمال - (ج 9 / ص 136)
إياكم وخشوع النفاق يخشع البدن ولا يخشع القلب. (الديلمي عن ابن مسعود).

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

  دارالافتاءجامعۃالرشید

  16محرم الحرام 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے