021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پانچ تولہ سونے اور معمولی نقدی ملکیت میں ہونے پر زکاۃ کا حکم
80913زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

میرے پاس ابھی کل پانچ تولہ سونا ہے اور بہت معمولی سی نقدی ہے۔ کیا مجھ پر زکاۃ  واجب ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زکوٰة سونا،چاندی ،مال تجارت اورنقدی پرواجب ہوتی ہے،نصابِ زکاۃ میں یہ تفصیل ہے کہ

1۔ اگرکسی کےپاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا نصاب ہے اس سے کم پر زکاۃ واجب نہیں۔

2۔ اگرکسی کےپاس صرف چاندی ہو تو  ساڑھے باون تولہ چاندی  نصاب ہے، جب چاندی وزن کے اعتبار سے اتنی مقدار میں ہوگی تو زکاۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں۔

3۔ اگرکسی کےپاس صرف نقدی یا صرف مالِ تجارت ہو یا کسی کےپاس سونا، چاندی، نقدی یا مال تجارت میں سے دو یا دو سے زائد اموال ہوں تو ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت یعنی قیمت نصاب ہےاورسال گزرنےپراس پرڈھائی فیصدزکٰوة واجب ہے۔

اس وضاحت کی روشنی میں صورت مسؤولہ میں پانچ تولہ سونے کے ساتھ چونکہ نقدی بھی ہے،اگرچہ کم ہے،اس لیے ایسے میں نصاب چاندی کی مالیت کے حساب سےمعتبر ہوگا، اور پانچ تولہ کی قیمت چونکہ ساڑھے باون تولہ کی قیمت سے زیادہ ہےاس لیے زکاۃ واجب ہے۔تاہم یہ ضروری ہے کہ سال مکمل ہونے کی تاریخ میں سونے کے ساتھ نقدی بھی جمع ہو، ورنہ  اگر نقدی دوران سال سب خرچ ہو گئی اور سال کے آخری دن صرف پانچ تولہ سونا باقی رہا توزکاۃ لازم نہ ہوگی۔

زکاۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ اس سونے کی قیمت کے ساتھ، سال کے آخری دن جتنی نقدی ہوگی اس کوملاکرمجموعی قیمت کاڈھائی فیصد زکٰوة کے طورپرنکالناضروری ہوگا۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 179)
وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز. حتى لو ملك مائة درهم خمسة دنانير قيمتها مائة درهم تجب الزكاة عنده خلافا لهما، ولو ملك مائة درهم وعشرة دنانير أو مائة وخمسين درهما وخمسة دنانير أو خمسة عشر دينارا أو خمسين درهما تضم إجماعا كذا في الكافي.
بدائع الصنائع (2/ 20)
  فصل وأما أموال التجارة  فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة وهذا قول عامة العلماء
 وقال أصحاب الظواهر لا زكاة فيها أصلا
 وقال مالك إذا نضت زكاها لحول واحد
 وجه قول أصحاب الظواهر إن وجوب الزكاة إنما عرف بالنص والنص ورد بوجوبها في الدراهم والدنانير والسوائم فلو وجبت في غيرها لوجبت بالقياس عليها والقياس ليس بحجة خصوصا في باب المقادير
 ولنا ما روي عن سمرة بن جندب أنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرنا بإخراج الزكاة من الرقيق الذي كنا نعده للبيع
 وروي عن أبي ذر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال في البر صدقة
 وقال صلى الله عليه وسلم هاتوا ربع عشر أموالكم
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 281)
(قوله ويضم قيمة العروض إلى الذهب والفضة) أي وهذا بالإجماع اهـ كي (قوله وإن اختلفت جهة الأعداد) أي فالثمنان للتجارة وضعا والعروض جعلا.
البناية شرح الهداية (3/ 389)
(هو يقول) ش: أي أبو حنيفة يقول: م: (إن الضم للمجانسة) ش: أي ضم الذهب إلى الفضة للمجانسة بينهما في الثمنية م: (وهو) ش: أي المجانسة م: (يتحقق باعتبار القيمة دون الصورة).

 ولی الحسنین

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

15محرم الحرام 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ولی الحسنین بن سمیع الحسنین

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے